رسائی کے لنکس

بھارت میں کم عمری کی شادیوں پر کریک ڈاؤن، ڈھائی ہزار سے زائد گرفتاریاں


بھارت کی مشرقی ریاست آسام میں حکومت کی جانب سے کم عمری کی شادیوں کے خلاف چلائی جانے والی کریک ڈاؤن کی مہم کے تحت اب تک 2763 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے جن میں حکومت کے مطابق شوہر، والد، قاضی، مولوی اور پنڈت سبھی شامل ہیں۔

البتہ اس مہم نے اُس وقت ایک نیا موڑ لے لیا جب پانچ فروری کو بوگائیں گاؤں ضلعے میں گرفتاری کے خوف سے ایک 18 سالہ خاتون کو زچگی کے لیے اسپتال لے جانے کے بجائے گھر پر ہی زچگی کرائی گئی جس کے دوران اس کی موت ہو گئی۔

رپورٹس کے مطابق حالت بگڑنے پر خاتون کو اسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دے دیا۔ ابتدائی رپورٹ کے مطابق خاتون کی موت خون کی کمی سے ہوئی ہے تاہم اس معاملے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

اس واقعے کے بعد پولیس نے اس کے 23 سال شوہر شہینر علی اور 48 سالہ سسر عین الحق کو 'چائلڈ میرج ایکٹ' کے تحت گرفتار کر لیا۔

بوگائیں گاؤں کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) سوپنانیل ڈیکا کے مطابق لڑکی کی شادی اس کے بالغ ہونے سے قبل ہوئی تھی جس کی وجہ سے یہ گرفتاری ہوئی ہے۔

خیال رہے کہ بھارت میں لڑکیوں کی شادی کی قانونی عمر 18 اور لڑکوں کی 21 سال ہے۔ اس سے قبل شادی کرنے یا اس میں معاونت کرنے والوں کو تین ماہ کی جیل یا جیل کے ساتھ جرمانہ بھی ہو سکتا ہے۔ حکومت اس عمر میں اضافہ کرنے جا رہی ہے۔ مرکزی کابینہ نے لڑکیو ں کی عمر بڑھا کر 21 سال کرنے کی منظوری دے دی ہے۔


قبل ازیں تین فروری کو جنوبی سلمارا ضلع میں دو بچوں کی ایک ماں نے ان کے والدین کے مطابق، گرفتاری کے خوف سے خودکشی کر لی۔ اس وقت ان کی عمر 27 سال تھی جب کہ شادی کے وقت 18 سال سے کم تھی۔ سال 2020 میں ان کے شوہر کا کرونا کی وبا میں انتقال ہو گیا تھا اور وہ اپنے والدین کے پاس رہ رہی تھیں۔

لیکن ضلعے کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) ہورین ٹوکبی خود کشی کا سبب کریک ڈاؤن ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ انہوں نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ خاتون نے گھریلو مسائل کی وجہ سے خودکشی کی ہے۔ اس کا تعلق پولیس کے کریک ڈاؤن سے نہیں ہے۔ ہم اس معاملے کی تحقیقات کریں گے۔

لوک سبھا میں کانگریس کے ڈپٹی لیڈر اور سینئر کانگریس رہنما گورو گوگوئی نے 18 سالہ خاتون کی موت پر ریاست کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما پر سخت تنقید کی ہے۔

انہوں نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ ان کی حکومت کی جانب سے چلائی جانے والی ’احمقانہ مہم‘ کی وجہ سے اس خاتون کی جان گئی اور بہت سی ٹین ایجر حاملہ عورتیں اسپتال جانے سے ڈر رہی ہیں۔

اُنہوں نے کریک ڈاؤن کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ نومولود بچہ اپنی ماں سے محروم ہو گیا اور اس کے والد اور دادا جیل میں ہیں۔ یاد رہے کہ عدالت نے ان دونوں کو 14 روز کی عدالتی تحویل میں جیل بھیج دیا ہے۔

واضح رہے کہ وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے گزشتہ دنوں اعلان کیا تھا کہ ان کی حکومت ریاست کو کم عمری کی شادیوں سے پاک کرنا چاہتی ہے۔ اس سلسلے میں 4000 سے زائد رپورٹس درج کی گئی ہیں۔ ان کے مطابق یہ گرفتاری 2026 میں ہونے والے اسمبلی انتخابات تک جاری رہے گی۔

بھارت میں ستمبر 1929 میں ہندوؤں کی شادی سے متعلق ایک قانون منظور کیا گیا تھا جسے ’شاردا میرج ایکٹ‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے تحت شادی کے لیے لڑکی کی قانونی عمر 16 اور لڑکے کی 18 سال مقرر کی گئی تھی۔ 2006 میں اس عمر میں اضافہ کرکے 18 اور 21 سال کر دیا گیا۔

اس وقت مسلم مذہبی شخصیات نے اس قانون کو مسلمانوں پر نافذ کرنے کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ اسلام میں شادی کی عمر بلوغت ہے۔ لیکن حکومت نے ان کے مطالبے کو مسترد کر دیا تھا اور یہ قانون تمام مذاہب کے ماننے والوں پر نافذ کیا گیا۔ متعدد عدالتوں نے بھی ا س اعتراض کو مسترد کر دیا اور اس سلسلے میں مقدمات کا فیصلہ ملکی قانون کے تحت کیا۔

بعض مسلم شخصیات اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے کریک ڈاؤن کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کسی ایک مذہب کو ہدف بنا کر یہ مہم چلائی جا رہی ہے تو غلط ہے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے بانی رکن، بورڈ کی دار القضا کمیٹی کے کنوینر، ندوة العلما لکھنو کی مجلس تحقیقات شریعہ کے ناظم اور اسلامک فقہ اکیڈمی آف انڈیا کے جنرل سکریٹری مولانا عتیق احمد بستوی کے مطابق مسلمان بھی حکومت کی مقررکردہ شادی کی عمر کو مانتے ہیں لیکن آسام میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کھلا ہوا ظلم ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی نے کم عمری میں شادی کی لیکن اب وہ بالغ ہے تو اس کے خلاف کارروائی کا کوئی جواز نہیں ہے۔ البتہ حکومت کو چاہیے کہ وہ اب مزید ایسی شادیاں نہ ہونے دے۔

اُنہوں نے سوال کیا کہ کیا اب پولیس قبروں سے نکال کر لوگوں سے پوچھے گی کہ تم نے کم عمری میں شادی کیوں کی تھی۔ انہوں نے اسے مسلمانوں کے خلاف انتقامی کارروائی قرار دیا۔

جمعیة علماءہند کے صدر مولانا محمود مدنی بھی کریک ڈاؤن کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں اس وقت ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے جس سے مختلف مذاہب کے لوگوں میں دوریاں بڑھ رہی ہیں۔

آسام کے مسلمانوں کی ایک سیاسی جماعت ’آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ‘ (اے آئی یو ڈی ایف) کے رکن اسمبلی امین الاسلام نے چار فروری کو گوہاٹی میں ایک نیوز کانفرنس میں کریک ڈاؤن کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ہم بھی کم عمری کی شادیوں کے خلاف ہیں۔ لیکن حکومت ایسی شادیوں کے اسباب پر توجہ دینے کے بجائے بے قصوروں کو گرفتار کر رہی ہے۔

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور حیدرآباد سے رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے بھی آسام حکومت کے اس قدم کی مذمت کی اور کہا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ جذبات رکھتی ہے۔

اُنہوں نے سوال کیا کہ جن مردوں کو گرفتار کیا گیا ہے ان کی بیویوں، بہووں اور بیٹیوں کی دیکھ ریکھ کون کرے گا، کیا وزیر اعلیٰ ان کی روزی روٹی کا ذمہ لیں گے۔

یاد رہے کہ حکومت کی اس کارروائی کے خلاف مختلف مقامات پر متاثرہ خواتین احتجاج کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اب اپنی زندگی کیسے گزاریں۔

لیکن وزیر اعلیٰ نے اعلان کیا ہے کہ ان کی حکومت اس معاملے میں کوئی رعایت یا رحم دلی کا مظاہرہ نہیں کرے گی۔

نئی دہلی میں واقع ایک تحقیقی ادارے ’سینٹر فار ویمنس ڈویلپمنٹ اسٹڈیز‘ (سی ڈبلیو ڈی ایس) کی سابق کارکن ریشا سنگھ اخبار انڈین ایکسپریس میں اپنے مضمون میں لکھتی ہیں کہ آسام حکومت کی یہ مہم خواتین کی فلاح سے کم اور سیاست سے زیادہ تعلق رکھتی ہے۔

انھوں نے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کی رپورٹس کی روشنی میں بتایا کہ آسام میں-6 2005 میں 18 سال سے کم عمر میں لڑکیوں کی شادی کا فی صد 38 اعشاریہ چھ تھا جو 2019-20 میں گھٹ کر 33 اعشاریہ سات فی صد پر گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق 15 سے 19 سال کی عمر میں حمل کی شرح بھی کم ہوئی ہے۔ پہلے اس کا فی صد 16 تھا جو اب 11 پر آگیا ہے۔ اسی طرح ولادت کے وقت یا اس کے فوری بعد ہونے والی اموات کی شرح بھی دو اعشاریہ دو سے گھٹ کر ایک اعشاریہ نو تک آگئی ہے۔

ریشا سنگھ کہتی ہیں کہ نیشنل فیملی ہیلتھ رپورٹ کے مطابق آسام میں خواتین کے کام کے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ریاست میں 1000 لڑکوں کے مقابلے میں صرف 916 بچیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ ایسے میں کم عمری کی شادی ریاست میں نظم و نسق کا سب سے بڑا مسئلہ کیسے بن گیا۔

ان کے مطابق شوہر اور والد کی گرفتاری سے خواتین کو بااختیار کیسے بنایا جائے گا یا کم عمری کی شادی کو کیسے روکا جائے گا۔ اس مہم سے خواتین ہی متاثر ہوں گی اور مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف متعصبانہ جذبات میں اضافہ ہوگا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG