رسائی کے لنکس

مودی سے ڈگری مانگنے پر وزیرِ اعلٰی کیجری وال کو 25 ہزار روپے جرمانہ


گجرات ہائی کورٹ نے وزیرِ اعظم نریندر مودی کی تعلیمی ڈگری کی تفصیلات طلب کرنے پر دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال پر 25 ہزار روپے کا جرمانہ کر دیا۔ عدالت کے مطابق یہ تفصیلات بہت پہلے عام کر دی گئی تھیں۔ عدالت نے جرمانہ جمع کرنے کے لیے چار ہفتے کا وقت دیا ہے۔

جسٹس بیرین وشنو نے جمعے کو اپنے فیصلے میں کہا کہ ایسے میں جب کہ وزیر اعظم کی تعلیمی ڈگری کی تفصیلات بہت پہلے سے پبلک ڈومین میں ہیں, اروند کیجری وال کی جانب سے حق اطلاعات قانون (رائٹ ٹو انفارمیشن) کے تحت ان کی ڈگری پر اصرار کرنا ان کی نیت اور منشا کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے۔

عدالت کے مطابق کیجری وال نے ایک ایسے معاملے میں رائٹ ٹو انفارمیشن( آر ٹی آئی) کے تحت تفصیلات طلب کی ہیں جو آر ٹی آئی کے دائرے میں نہیں آتا۔ اس کا مقصد ایک تنازع اور سنسنی خیزی پیدا کرنا ہے۔

کیجری وال نے 2016 میں نریندر مودی کی ڈگری کی تفصیلات طلب کی تھیں جس پر اس وقت کے سینٹرل انفارمیشن کمشنر (سی آئی سی) ایم سری دھر آچاریولو نے وزیرِ اعظم کے دفتر، گجرات یونیورسٹی اور دہلی یونیورسٹی کو ہدایت کی تھی کہ وہ وزیر اعظم کے گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کے بارے میں معلومات فراہم کریں۔

گجرات یونیورسٹی نے فوری طور پر وزیرِ اعظم مودی کی ڈگری اپنی ویب سائٹ پر پوسٹ کر دی تھی لیکن انفارمیشن کمشنر کے حکم کو اصولی بنیاد پر چیلنج بھی کیا تھا۔

اس معاملے پر سماعت کے دوران ہائی کورٹ کو بتایا گیا کہ وزیر اعظم کی ڈگری یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر موجود ہے جسے کوئی بھی دیکھ سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود کیجری وال قانونی کارروائی کرنے پر قائم رہے۔

گجرات یونیورسٹی نے ان حقائق کو عدالت کے سامنے پیش کرتے ہوئے آر ٹی آئی قانون کی بھی تشریح کی۔ اس کے بعد عدالت نے یونیورسٹی کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے انفارمیشن کمشنر کے حکم کو منسوخ کر دیا اور اروند کیجری وال پر 25 ہزار روپے کا جرمانہ لگایا۔

حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے عدالت میں وزیر اعظم کی دہلی یونیورسٹی سے بی اے اور گجرات یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ایم اے کی ڈگری کی نقول پیش کیں۔

سولیسیٹر جنرل تشار مہتہ نے گزشتہ ماہ عدالت میں استدلال کیا تھا کہ مذکورہ دونوں یونیورسٹیز کو تفصیلات عام کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔


حکومت کے وکیل نے بحث کے دوران کہا کہ جمہوریت میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سرکاری عہدے پر فائز شخص کے پاس ڈاکٹریٹ کی ڈگری ہے یا وہ ناخواندہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ عوامی مفاد کا معاملہ بھی نہیں ہے۔ بلکہ اس سے کسی کی پرائیویسی متاثر ہوتی ہے۔

سولیسیٹر جنرل نے کہا کہ آر ٹی آئی کے تحت عوامی سرگرمیوں سے متعلق درخواست دی جانی چاہیے۔ کوئی یہ نہیں پوچھ سکتا کہ میں نے آج ناشتے میں کیا لیا۔ البتہ یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ ناشتے پر کتنا خرچ ہوا۔

کیجری وال کے وکیل نے کہا کہ انتخابی نامزدگی فارم میں تعلیمی قابلیت درج ہے۔ یہ ایک جائز سوال ہے۔ ہم ڈگری کا سرٹیفکیٹ مانگ رہے ہیں مارک شیٹ نہیں۔

بی جے پی نے کیجری وال پر تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا کہ وہ حقائق کو غلط طریقے سے پیش کر رہے ہیں۔ وہ اپنے وزیر کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کی وجہ سے جھنجلاہٹ کے شکار ہیں۔

بی جے پی کے آئی ٹی سیل کے سربراہ امت مالویہ نے اس سلسلے میں اروند کیجری وال کی مذمت کی اور ان کی اپیل کو اوچھی سیاست قرار دیا۔


ادھر اروند کیجری وال نے ہفتے کو کہا کہ گجرات ہائی کورٹ کے فیصلے نے وزیر اعظم کی تعلیم کے بارے میں کافی شبہات پیدا کر دیے ہیں۔ چونکہ وزیر اعظم کو بہت سے فیصلے کرنا ہوتے ہیں لہٰذا ان کا تعلیم یافتہ ہونا اہم ہے۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ گجرات یونیورسٹی دو وجوہات سے وزیر اعظم کی ڈگری کی تفصیلات بتانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یا تو یہ ان (وزیر اعظم) کا تکبرہے یا پھر ڈگری فرضی ہے۔

واضح رہے کہ سوشل میڈیا میں ایک پرانا ویڈیو کلپ موجود ہے جس میں نریند رمودی 2001 میں ایک سابق صحافی و موجودہ کانگریس رہنما راجیو شکلا کے پروگرام ’روبرو‘ میں انٹرویو دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میں پڑھا لکھا نہیں ہوں۔ میں صرف ہائی اسکول پاس ہوں۔‘ اس کے ساتھ ہی ویڈیو اچانک ختم ہو جاتی ہے۔

جب وہ وزیر اعظم بن گئے تو ان کی تعلیمی قابلیت پر سوال اٹھنے لگے جس کے بعد حکومت کی جانب سے بتایا گیا کہ انھوں نے دہلی یونیورسٹی سے گریجویشن اور گجرات یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس سے پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ امت شاہ اور راج ناتھ سنگھ نے ایک نیوز کانفرنس میں ان کی ڈگری کو میڈیا کو دکھایا بھی تھا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG