دوسرے ملکوں کی طرح، پاکستان میں بھی یہ بحث جاری ہے کہ لاک ڈاؤن کو کھولا جائے یا نہیں۔ اور اگر کھولا جائے تو کس حد تک؟ تاہم، زیادہ تر ماہرین کا اب بھی یہی موقف ہے کہ وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے مکمل اور سخت نوعیت کا لاک ڈاؤن ہونا چاہئے۔
وفاقی حکومت چاہتی ہے کہ لاک ڈاؤن میں کچھ نرمی ہونی چاہئے، کیونکہ سخت نوعیت کا لاک ڈاؤن غیر معینہ مدت تک جاری نہیں رکھا جا سکتا۔ تین صوبائی حکومتیں جو یا تو PTI کی ہیں یا اسکی اتحادی ہیں وفاق کے موقف کے حق میں ہیں، جبکہ صوبہ سندھ میں جہاں اپوزیشن کی پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، اس بارے میں مختلف موقف رکھتی ہے۔
اس ضمن میں، پاکستان کی ینگ ڈاکٹرز ایسو سی ایشن کا موقف یہ ہے لاک ڈاؤن کی مدت میں توسیع ہونی چاہئے، تاکہ ایک ہی دفعہ میں کرونا وائرس کی وبا پر قابو پایا جا سکے۔
ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبے میں لاک ڈاؤن میں توسیع ڈاکٹروں کے کہنے پر ہی کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کے بلا شبہ لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل درآمد کی ضرورت ہے اور ماہرین کی اس بارے میں جو رائے ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ لیکن، زمینی حقائق کو بھی پیش نظر رکھنا پڑتا ہے اور لوگوں کو بھوک سے نہیں مارا جا سکتا۔
صوبے میں کرونا وائرس کی صورت حال کے بارے میں، راجہ بشارت نے کہا کہ دوسرے صوبوں کے مقابلے میں کرونا کا پھیلاؤ بھی کم اور شرح اموات بھی کم ہے ۔
ڈاکٹروں کی اس شکایت کے بارے میں کہ انکو حفاظتی سامان ضرورت کے مطابق نہیں ملتا اور انکی سلامتی خطرے میں پڑی رہتی ہے، راجہ بشارت نے کہا کہ حکومت ضرورت بھر سامان فراہم کر رہی ہے؛ اور صوبے میں ٹیسٹ بھی دوسرے صوبوں سے زیادہ ہو رہے ہیں اور ٹیسٹس کی گنجائش بھی بڑھائی جا رہی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ حکومت ذمہ دارانہ راستہ ختیار کر رہی ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ لاک ڈاؤن کو ختم کرنے کے لئے کیا کسی وقت کا تعین کر لیا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ صورت حال کو مسلسل مانیٹر کیا جا رہا ہے اور ایکدم سے اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔
ادھر، ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری، ڈاکٹر سلمان کاظمی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹروں کا مطالبہ ہے کہ انہیں ضرورت کے مطابق، حفاظتی سامان یا 'پروٹیکٹو گیئر' فراہم کیا جائے، خاص طور سے N-95 ماسک جو ڈاکٹروں کے تحفظ کے لئے بہت ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے یہ حفاظتی ساز و سامان قدرتی آفات سے نمٹنے والے قومی ادارے کے توسط سے آتا تھا، اس لئے بہت سی رکاوٹیں حائل ہوتی تھیں۔ لیکن، اب حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اسپتالوں کو براہ راست سامان فراہم کیا جائے گا، جس کے بعد امید کی جا سکتی ہے کہ سپلائی کی صورت حال میں بہتری آ سکے گی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب Home Isolation کا کوئی نظام موجود نہیں۔ بقول ان کے، ''اور ہوتا یہ ہے کہ اگر کسی مریض کا پتا چلے تو اسے اسپتال بھیجا جاتا ہے اور اسے اسپتال پہنچانے کے لئے پولیس اس کے گھر جاتی ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پورے علاقے میں خوف و ہراس پھیل جاتا ہے۔ اور پھر لوگ اس خوف سے بیماری چھپاتے پیں کہ پولیس آجائے گی، اور یوں، بیماری پھیلتی رہتی ہے''۔
ڈاکٹر سلمان کاظمی نے کہا کہ ایسوسی ایشن یہ بھی سمجھتی ہے کہ سارک ممالک ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں؛ اور ان سب کو ملکر ایک ساتھ لاک ڈاؤن کرنے اور ایک ساتھ کھولنے کا فیصلہ کرنا چاہئیے، جس سے اسے کُٹرول کرنا بہت آسان ہو جائے گا۔