رسائی کے لنکس

دنیا کے مختلف ملکوں میں 'اینٹی باڈی ٹیسٹںگ،' کرونا کیس زیادہ ہونے کا انکشاف


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

جرمنی، نیدرلینڈ اور امریکہ میں ہونے والے حالیہ 'اینٹی باڈی ٹیسٹنگ' کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ کئی علاقوں میں آبادی کے دو فی صد سے لے کر تیس فی صد تک افراد کرونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں۔

امریکہ کی سٹینفورڈ یونیورسٹی کے سروے کے نتائج کے مطابق بھی اصل کیسز رپورٹ ہونے والے کیسز سے کئی گنا زیادہ ہیں۔

اس سروے سے یہ بھی اخذ کیا جا رہا ہے کہ کرونا وائرس کے زیادہ تر کیسز میں مریضوں کو ہلکی پھلکی علامات تھیں۔

برطانوی خبر رساں ادارے 'گارٖڈین' کے مطابق امریکی یونیورسٹی سٹینفورڈ سے تعلق رکھنے والے محققین نے امریکی کاؤنٹی سانٹا کلارا کے 3300 رہائشیوں کے اینٹی باڈی ٹیسٹ کیے۔

ان میں سے 4.16 فی صد افراد میں کرونا وائرس کی اینٹی باڈیز پائی گئیں۔ اگر اس سروے کو کل آبادی سے ملایا جائے تو محققین کے اندازوں کے مطابق کاؤنٹی میں 81 ہزار افراد کرونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں۔ یہ تعداد کاؤنٹی میں رپورٹ ہونے والے کل کیسز سے کئی گنا زیادہ ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کی ایک اور ریسرچ میں امریکی شہر لاس اینجلس کے 863 افراد کے ٹیسٹ کے بعد 5.6 فی صد افراد میں کرونا وائرس کی اینٹی باڈی پائی گئی۔

اس سروے کے حساب سے اب تک لاس اینجلس کی چار لاکھ 42ہزار آبادی اس مرض سے متاثر ہو چکی ہے۔

ایک جریدے 'سائنس میگ' کے مطابق نو اپریل کو یونیورسٹی آف بون کی ریسرچ ٹیم نے جرمن قصبے 'ہائینس برگ' میں ہونے والے سروے کے نتائج دیے تھے۔ جس کے مطابق 500 افراد کا ٹیسٹ لیا گیا اور ان میں سے 14 فی صد میں کرونا وائرس کی اینٹی باڈیز پائی گئیں۔

بارہ ہزار 500 افراد کی آبادی والے قصبے میں ہونے والی اموات کے ساتھ اگر اس تناسب کو دیکھا جائے تو کل متاثر افراد میں سے صرف 0.37 فی صد کی اموات ہوئیں۔

سائنس پر رپورٹنگ کرنے والے خبر رساں ادارے 'لائیو سائنس' کے مطابق امریکی شہر نیویارک میں ہونے والے ایسے ہی ایک اور سروے کے نتائج کے مطابق ہر سات میں سے ایک فرد میں کرونا وائرس کی اینٹی باڈی پائی گئی۔

اگر اسے نیویارک کی آبادی کے حساب سے دیکھا جائے تو تحقیق کے مطابق اندازاً 27لاکھ افراد کرونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں۔

لائیو سائنس کے مطابق ماہرین کا خیال ہے کہ یہ سرویز ایک تو بہت کم افراد پر کئے گئے اور ان کے غلط یا صحیح ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ اس لیے یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ ان میں دی جانے والی تعداد بہت زیادہ ہے۔

اسی طرح رپورٹ ہونے والی اموات میں وہ ہلاکتیں شامل نہیں ہیں جن میں یا تو کرونا وائرس کی تشخیص ہی نہیں ہوئی اور وہ گھر میں یا نرسنگ ہوم میں وفات پا گئے۔

ان ٹیسٹس کے ردعمل میں عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ کسی کے خون میں کرونا وائرس کی اینٹی باڈیز کا پایا جانا اس بات کا تو ثبوت ہے کہ وہ کرونا وائرس سے متاثر ہوا تھا. مگر اس بات کا ضامن نہیں ہے کہ وہ فرد کرونا وائرس سے دوبارہ متاثر نہیں ہو سکتا۔

عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنسی پروگرامز کے ایگزیکٹو ایڈیٹر مائک ریان کا کہنا ہے کہ ‘‘کوئی بھی یقینی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ اگر کسی شخص کے خون میں اینٹی باڈیز موجود ہیں تو وہ مکمل طور پر محفوظ ہے اور کرونا وائرس سے دوبارہ متاثر نہیں ہو سکتا۔

اینٹی باڈیز کیا ہے؟

امریکی ادارے نیشنل کینسر انسٹی ٹیوٹ کی ویب سائٹ کے مطابق خون میں موجود پلازما سیلز جو سفید بلڈ سیلز کی ایک قسم ہے ایک خاص قسم کی پروٹین پیدا کرتا ہے۔ جو جسم میں داخل ہونے والے ایسے پروٹین جنہیں 'اینٹی جن' کہا جاتا ہے کو تباہ کرنے کے کام آتا ہے۔

اسے جسم کا مدافعاتی نظام پہچان نہیں پاتا۔ یہ اینٹی جن عموماً کسی جراثیم کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ ہر اینٹی باڈی ایک ہی قسم کے اینٹی جن کو تباہ کرتا ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ اگر خاص قسم کی اینٹی باڈی جسم میں موجود ہے تو اس جسم پر پہلے اس سے متعلق جراثیم کا حملہ ہو چکا تھا۔

صحت مند ہونے کے بعد یہ اینٹی باڈیز چند دنوں تک جسم میں موجود رہتی ہیں اور اسی جراثیم کے دوبارہ حملے کی صورت میں جسم کے مدافعتی نظام کی یادداشت میں موجود رہتا ہے۔

طبی ماہرین ان اینٹی باڈیز سے کرونا وائرس کے شکار مریضوں کے مدافعتی نظام کو بہتر بنانے پر کام کر رہے ہیں۔ اس روایتی طریقہ کار کو 'پیسو امیونائزیشن' کہا جاتا ہے۔

XS
SM
MD
LG