رسائی کے لنکس

کرکٹ ورلڈ کپ فائنل؛ بھارتی کشمیر میں سیاسی تنازع کی وجہ کیوں بن رہا ہے؟


کرکٹ ورلڈ کپ کے فائنل میں بھارت کے خلاف آسٹریلیا کی فتح پر جشن منانے اور پاکستان کے حق میں نعرے لگانے والے سات کشمیری طلبہ کی گرفتاری پر سیاسی تنازع جنم لے رہا ہے۔

طلبہ کے والدین نے سرینگر میں جاری کیے گیے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ اس معاملے کو سیاسی رنگ دینے سے طلبہ کو نقصان ہو گا۔

ایک طالبِ علم کے والد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "ہمیں اس بات کی فکر کھائی جا رہی ہے کہ سیاسی لیڈروں اور جماعتوں کی مداخلت اور اس معاملے کو سیاسی قضیہ بنانے سے ہمیں درپیش مسئلہ سلجھنے کے بجائے مزید الجھ سکتا ہے۔"

واضح رہے کہ ان طلبہ کا تعلق شمالی ضلع گاندربل میں واقع شیرِ کشمیر یونیورسٹی آف اگریکلچرل سائنسز اور ٹیکنالوجی کے شعبہ ویٹرنری سائنسز کے ساتھ ہے۔

گرفتار طلبہ کے والدین نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ انہوں نے جموں و کشمیر کے سربراہِ انتظامیہ لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا سے مداخلت کی اپیل کی ہے۔

ملزموں کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد سے متعلق قانون 'یو اے پی اے' کی دفعہ 13 اور تعزیراتِ ہند کی دفعات 505 اور 506 کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

طلبہ پر الزام ہے کہ اُنہوں نے 19 نومبر کو کرکٹ ورلڈ کپ کے فائنل میں بھارت کی شکست پر جشن منایا تھا اور اس دوراں انہوں نے پاکستان کے حق میں نعرہ بازی کی تھی اور ہوسٹل میں مقیم غیر مقامی ساتھی طلبہ کو ڈرایا دھمکایا تھا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف ایف آئی آر ایک غیر کشمیری طالبِ علم کی شکایت پر درج کی گئی ہے۔

شکایت میں کہا گیا ہے کہ ان طلبہ نے اس کی تذلیل کی، یہاں تک کہ اُسے بھارت کی ٹیم کی حمایت کرنے پر گولی مارنے کی دھمکی دی۔

شکایت میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان طلبہ کی طرف سے پاکستان کے حق میں نعرے لگانے کے عمل سے ہوسٹل میں مقیم اُن طلبہ میں خوف و ہراس پھیل گیا جن کا تعلق بیرونی ریاستوں سے ہے۔

حزبِ اختلاف کی جماعتوں اور دیگر ناقدین نے طلبہ کی گرفتاری بالخصوص ان پر 'یو اے پی اے' جیسے سخت گیر قانون کے تحت مقدمہ درج کرنے کے اقدام کی شدید نکتہ چینی کی ہے۔

سابق وزیرِ اعلیٰ اور اپوزیشن پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے منگل کو سرینگر میں ایک نیوز کانفرنس کے دوراں کہا کہ "جیتنے والی ٹیم کے لیے خوشی کا نعرہ لگانا بھی اب کشمیر میں جرم بن گیا ہے۔"


بھارت کے ایک سابق وفاقی وزیر اور سینئر کانگریس لیڈر پروفیسر سیف الدین سوز نے اپنے ایک بیان میں کہا "اگر ان لڑکوں کا کرکٹ کھلاڑیوں کی ایک مخصوص ٹیم کے حق میں خوشی کا نعرہ لگانا جموں وکشمیر انتظامیہ کے ذوق کو نہیں بھایا تب بھی ان کی یکسر غیر قانونی گرفتاری اس کے لیے بری تشہیر کا موجب بنے گی۔

اُن کا کہنا تھا کہ "مجھے اس بات کا ادراک ہے کہ انہیں 'یو اے پی اے' کی دفعہ 13 اور تعزیراتِ ہند کی دفعات 505 اور 506 کے تحت گرفتار کرنا بالکل غلط ہے۔"

سابق وزیرِ اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبد اللہ نے طلبہ کی گرفتاری پر ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ "ان طلبہ نے جو کچھ کیا، میں اس سے اتفاق نہیں کرتا ہوں لیکن پولیس نے جس طریقے سے اس معاملے سے نمٹنے کی کوشش کی ہے میں اس سے بھی متفق نہیں ہوں۔

اُن کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی نے دہلی اور سرینگر کے درمیان دوری کو دل کی دوری سے تعبیر کیا تھا اور کہا تھا کہ اس کو نزدیکیوں میں بدل دیا جائے گا لیکن اس طرح کے اقدامات دل کی دوری کو اور بڑھا سکتے ہیں۔"

بھارت کی مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی کے مقامی لیڈر محمد یوسف تاریگامی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ایکس' پر اپنی پوسٹ میں کہا کہ "یو اے پی اے کا جو دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے بنایا گیا قانون ہے طلبہ کے خلاف استعمال کرنا محض اس لیے کہ انہوں نے کھیل کی تقریبات پر خوشی منائی تھی حد درجہ افسوسناک ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG