رسائی کے لنکس

بھارتی سپریم کورٹ کا سی اے اے پر حکمِ امتناع کا عدم اجرا، حکومت سے جواب طلب


فائل فوٹو
فائل فوٹو

  • سپریم کورٹ میں سی اے اے کو چیلنج کرنے والی 237 درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔
  • درخواست گزاروں کی وکیل نے عدالت سے اپیل کی کہ کیس کی سماعت کے دوران جو شہریت دی گئی ہے اس پر پابندی لگائے۔
  • عدالت اب نو اپریل کو اس معاملے پر سماعت کرے گی۔ حکومت نے آٹھ اپریل تک جواب جمع کرانا ہے۔

بھارت کی سپریم کورٹ نے منگل کو شہریت کے متنازع ترمیمی قانون سی اے اے کا نفاذ روکنے سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران حکمِ امتناع جاری نہیں کیا۔ البتہ حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ہدایت کی کہ وہ تین ہفتے کے اندر آٹھ اپریل تک ان درخواستوں پر جواب جمع کرائے۔

سپریم کورٹ میں سی اے اے کو چیلنج کرنے والی 237 درخواستیں دائر کی گئی تھیں جن پر منگل کو سماعت ہوئی۔

عدالت اب نو اپریل کو اس معاملے پر سماعت کرے گی۔ حکومت نے 11 مارچ کو اس قانون کے نفاذ کا اعلان کیا تھا۔

درخواست گزاروں کی جانب سے پیش ہونے والی سینئر وکیل اندرا جے سنگھ نے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی سربراہی میں سماعت کرنے والے بینچ سے اپیل کی کہ عدالت کم از کم اس دوران جو شہریت دی گئی ہے اس پر پابندی لگائے۔

اس پر عدالت نے کہا کہ شہریت دینے کا بنیادی ڈھانچہ اب تک موجود نہیں ہے۔

واضح رہے کہ گجرات کے وزیر داخلہ ہرش سنگھوی نے 16 مارچ کو احمد آباد میں ضلعی کلکٹر کے دفتر میں ایک تقریب میں 18 پاکستانی ہندوؤں کو شہریت تفویض کی تھی۔

حکومت کی جانب سے پیش ہونے والے سولیسیٹر جنرل تشار مہتہ نے سماعت کے دوران کہا کہ سی اے اے کسی کی شہریت لینے والا قانون نہیں ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں چیلنج کی جانے والی درخواستوں پر جواب کے لیے وقت درکار ہے۔

اس پر چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے تین ہفتوں کا وقت دیا۔

سی اے اے کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کی چھ اقلیتوں ہندو، مسیحی، سکھ، پارسی، جین اور بدھ برادری سے تعلق کی بنیاد پر مشکل حالات کا سامنے کرنے والے افراد کو بھارت کی شہریت دینے کا انتظام کیا گیا ہے۔

کیرالہ سے سرگرم سیاسی جماعت ’انڈین یونین مسلم لیگ‘ (آئی یو ایم ایل) نے سی اے اے کے نفاذ کے اعلان کے اگلے روز سپریم کورٹ میں اسے چیلنج کیا تھا۔

اس سے قبل جب دسمبر 2019 میں پارلیمنٹ سے یہ قانون منظور کیا گیا تھا تو اس وقت بھی سب سے پہلے اسی نے عدالت میں اسے چیلنج کیا تھا۔

گزشتہ ہفتے سینئر وکیل کپل سبل نے آئی یو ایم ایل کی جانب سے عدالت میں کہا تھا کہ لوک سبھا کے انتخابات چوں کہ بالکل قریب ہیں۔ لہٰذا سی اے اے کے نفاذ پر سوال اٹھتا ہے۔

آئی یو ایم ایل کے علاوہ ’آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین‘ (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اور رکن پارلیمان اسد الدین اویسی، کانگریس کے رہنما جے رام رمیش، ترنمول کانگریس کی رہنما مہوا موئترا، نجی تنظیم رہائی منچ اور یونائیٹڈ اگینسٹ ہیٹ نامی انسانی حقوق کی تنظیم سمیت متعدد تنظیموں کی جانب سے اسے چیلنج کیا گیا ہے۔

’یونائیٹڈ اگینسٹ ہیٹ‘ نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اظہار مایوسی کرتے ہوئے کہا کہ معاملے کی حساسیت کے پیشِ نظر عدالت کو کم از کم یہ کہنا چاہیے تھا کہ جب تک یہ معاملہ زیرِ سماعت ہے سی اے اے کے نفاذ پر پابندی لگائی جاتی ہے۔

مذکورہ تنظیم سے وابستہ ندیم خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سی اے اے کے خلاف 237 درخواستیں سپریم کورٹ میں داخل ہیں۔ اسی سے اس معاملے کی حساسیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

ان کے مطابق سب سے پہلے تو عدالت نے اس بات پر مایوس کیا کہ اس نے چار سال تک اس پر سماعت ہی شروع نہیں کی اور سماعت شروع کی تو اس کے نفاذ کے بعد کی اور اس پر بھی اس نے نفاذ پر پابندی لگانے کے بجائے حکومت کو نوٹس جاری کر دیا۔

 متنازع شہریت قانون کا نفاذ: بھارتی شہری کیا کہتے ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:46 0:00

’ایسو سی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس‘ (اے پی سی آر) نے بھی سپریم کورٹ کی جانب سے سی اے اے کے نفاذ پر پابندی لگانے کے بجائے حکومت کو نوٹس جاری کرنے پر افسوس کا اظہار کیا۔

دریں اثنا ایک امریکہ کی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر بِن کارڈرن نے سی اے اے کے نفاذ پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ بھارت تعلقات چوں کہ گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ باہمی تعاون بلا لحاظ مذہب انسانی حقوق کے تحفظ کے مشترکہ اقدار پر مبنی ہو۔

انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ اس قانون کا خاص طور پر مسلمانوں پر اثر پڑے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسے رمضان کے مہینے میں نافذ کیا گیا جس سے یہ معاملہ اور خراب ہو جاتا ہے۔

گزشتہ ہفتے امریکہ کے محکمۂ خارجہ نے بھی اس پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

امریکی محکمۂ خارجہ نے کہا تھا کہ مذہبی آزادی کا احترام اور قانون کے تحت تمام برادریوں کے ساتھ مساوی سلوک جمہوریت کا بنیادی اصول ہے۔

اس پر بھارت کی وزارتِ خارجہ نے سخت ردِ عمل ظاہر کیا تھا۔

وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے بیان کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔

انہوں نے اسے غلط معلومات پر مبنی اور بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا۔

انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ سی اے اے شہریت دینے والا قانون ہے لینے والا نہیں۔

ان کے بقول یہ قانون ایسے لوگوں کو انسانی وقار اور احترام فراہم کرتا ہے جن کا کوئی ملک نہیں ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG