کراچی کے علاقے آرام باغ میں برہانی مسجد کے مرکزی دروازے پر جمعہ کی دوپہر ہونے والے حملے کو داوٴدی بوہرہ جماعت پر تیسرا حملہ قرار دیا جارہا ہے، جبکہ اس حملے میں مرنے والوں کی تعداد 2 ہوگئی ہے۔ 20 افرادکے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔
ڈی آئی جی عبدالخالق شیخ نے تصدیق کی ہے کہ دھماکہ موٹرسائیکل کے ذریعے کیا گیا۔دھماکے کے بعد میڈیا سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ نامعلوم افراد موٹرسائیکل میں دھماکہ خیزمواد بھر کر اسے مسجد کے قریب پارک کرکے فرار ہوگئے اور جیسے ہی نماز جمعہ ختم ہوئی اور لوگوں نے مسجد سے باہر نکلنا شروع کیا ٹائم ڈیوائس کے ذریعے دھماکہ خیز مواد کو اڑا دیا گیا جس سے ایک بچے سمیت دو افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔
دھماکے کے فوری بعد، جائے حادثہ پر پہنچنے والوں میں وائس آف امریکہ کا نمائندہ بھی شامل تھا۔ برہانی مسجد تنگ گلیوں میں واقع ہے جبکہ اس کا مرکزی گیٹ بھی ایک بغلی اور تنگ گلی میں واقع ہے اور کثیرالمنزلہ عمارت پر مشتمل ہے۔
مسجد چاروں جانب سے دکانوں اور دیگر تجارتی مراکز سے گھیری ہوئی ہے۔ اس کے ایک جانب داوٴی بوہرہ جماعت کے زیر انتظام چلنے والا ’برہانی اسپتال‘ ہے جہاں واقعے کے تقریباً دس زخمیوں کو لایا گیا اور طبی امداد دی گئی۔
دھماکے کی اطلاع کے ساتھ ہی یہاں درجنوں ایمبولینسز پہنچ گئیں، جبکہ علاقہ مکینوں کی بھی بہت بڑی تعداد جمع ہوگئی۔ پولیس اور رینجرز کے اہلکاروں کی بھی بڑی تعداد وہاں موجود تھی۔بھیڑ اور تنگ گلیوں کے سبب زخمیوں کو اسپتال منتقل کرنے میں امدادی ٹیموں کو خاصی دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔
جس علاقے میں یہ مسجد واقع ہے وہاں کے رہائشیوں اور تاجروں کی اکثریت داوٴدی بوہرہ جماعت سے تعلق رکھتی ہے۔ کمیونٹی کے زیادہ تر افراد تجارت کا پیشہ اپناتے ہیں اور ان سے متعلق عمومی رائے یہ ہے کہ وہ کسی کے معاملے میں نہیں پڑتے اور کراچی کے دیرینہ و تجربہ کار شہریوں کے مشاہدے کے مطابق انہیں نہایت’بے ضرر ‘تصور کیا جاتا ہے۔
جمعہ کو ہونے والے حملے کو تیسرا حملہ شمار کیا جارہا ہے۔ اس سے دو سال پہلے رمضان میں حیدری کے علاقے میں بھی بم حملہ ہوچکا ہے۔ حیدری میں بھی اس کمیونٹی کی اکثریت آباد ہے۔
حیدری حملے کے آس پاس ہی سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کے ایک علاقے میں بھی برہانی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگوں پر نامعلوم نے حملہ کرکے انہیں جانی نقصان پہنچایا تھا۔