رسائی کے لنکس

مصنوعی ذہانت پر قواعد و ضوابط کی تیاری، صدر بائیڈن کے دستخط سے ایگزیکٹو آرڈر جاری


صدر جو بائیڈن ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر رہے ہیں۔
صدر جو بائیڈن ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر رہے ہیں۔

امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے آرٹیفیشل انٹیلی جینس (اے آئی) کے حوالے سے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے ہیں جس کا مقصد ٹیکنالوجی کمپنیوں کے لیے ایسے ضوابط بنانا ہے جس سے ملک کی سیکیورٹی اور صارفین کے حقوق کا تحفظ ہو سکے۔

جو بائیڈن کے جاری کردہ ایگزیکٹو آرڈر کا مقصد ایک ایسا خاکہ بھی تیار کرنا ہے جس سے مؤثر قانون سازی ہو سکے اور عالمی معاہدوں میں بھی اس سے معاونت حاصل کی جا سکے۔

خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق پیر کو ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کرنے سے قبل صدر جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ مصنوعی ذہانت سے بہت تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ ان کے بقول اس میں جہاں بہت زیادہ قوت اور استعداد ہے وہیں اسمیں خطرات بھی موجود ہیں۔

واضح رہے کہ صدر بائیڈن کی جانب سے جاری کردہ ایگزیکٹو آرڈر کو مصنوعی ذہانت کے لیےمددگار اور قابلِ اعتماد ہونے کو یقینی بنانے کے حوالے سے پہلا قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ایگزیکٹو آرڈر میں صارفین کا تحفظ، رازداری، شہری حقوق، جدید سائنسی تحقیق اور مزدوروں کے حقوق کا احاطہ کیا گیا ہے۔

اس آرڈر کے تحت یہ ممکن بنایا جائے گا کہ کس طرح آرٹیفیشل انٹیلی جینس کو تخلیق کیا جائے اس طرح عام شہریوں کو خطرات میں ڈالے بغیر ٹیکنالوجی کمپنیوں کو منافع کمانے کے مواقع میسر ہوں گے۔ ممکنہ طور پر اس ایگزیکٹو آرڈر پر قانون سازی کی جائے گی تاکہ اسے مزید مؤثر بنایا جا سکے۔

’اے پی‘ کے مطابق اس ایگزیکٹو آرڈر کی تیاری کے وقت صدر بائیڈن نے وائٹ ہاؤس کے عملے کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس معاملے پر عمومی حکومتی انداز میں کارروائی نہیں چاہتے۔ انہوں نے عملے کو تیزی سے کام کی ہدایت کی تھی۔

امریکہ میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے کون کون سی نوکریاں خطرے میں ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:47 0:00

صدر جو بائیڈن نے اس ایگزیکٹو آرڈر کے اجرا کے لیے امریکہ کے ڈیفنس پروڈکشن ایکٹ کا استعمال کیا ہے جس کے تحت آرٹیفیشل انٹیلی جینس بنانے والی کمپنیاں اپنے سیفٹی ٹیسٹ کے نتائج اور دیگر معلومات حکومت کو دینے کی پابند ہوں گی۔

امریکہ کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹینڈرڈز اینڈ ٹیکنالوجی کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ کوئی بھی آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے ٹول، سافٹ ویئر یا ایپلی کیشن کے صارفین کے استعمال سے قبل محفوظ ہونے کے معیار کا جائزہ لے اور اسے حتمی منظوری دے۔

اسی طرح امریکہ کا محکمۂ تجارت (کامرس ڈپارٹمنٹ) وہ ضوابط جاری کرے گا جس کے تحت آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے تحت تخیلق کردہ مواد پر ایسا نشان یا واٹر مارک موجود ہو جس سے یہ وضاحت ہو سکے کہ مواد کسی شخص کی تخلیق ہے یا وہ آرٹیفیشل انٹیلی جینس کی مدد سے بنایا گیا ہے۔

وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف جیف زائنٹس کا کہنا تھا کہ صدر جو بائیڈن نے اپنے عملے کو ہدایت کی تھی کہ اس معاملے پر ہمیں تیزی سے آگے بڑھنا ہوگا، اگر تیزی سے آگے نہ بڑھے تو ٹیکنالوجی خود ایسا کرے گی۔

امریکہ میں اعلیٰ سرکاری حکام کے خیال میں سوشل میڈیا سے متعلق قواعد و ضوابط کے معاملے پر بھی حکومت نے تاخیر سے توجہ دی تھی اور اب امریکہ میں نوجوان سوشل میڈیا سے متعلق ذہنی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں۔

صدر بائیڈن نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کیا کہا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:50 0:00

آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے حوالے سے عمومی طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے سرطان سمیت کئی موذی امراض پر تحقیق میں مدد مل سکتی ہے جب کہ ایسے ماڈل تیار کیے جا سکتے ہیں جو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی وضاحت کر سکیں۔ اس کا معیشت کی بہتری، حکومت کی شہریوں کے لیے سروسز کے معیار میں مثبت تبدیلی سمیت دیگر امور میں استعمال ہو سکتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے منفی پہلو بھی ہیں جن میں سچ کو مخفی رکھنے کے لیے جھوٹ کا استعمال شامل ہے۔ یہ نسلی اور معاشرتی عدم مساوات کو گہرا کر سکتی ہےاسی طرح جرائم پیشہ افراد اور جعلسازوں کو ہتھکنڈے فراہم کرسکتی ہے ۔

واضح رہے کہ امریکہ میں آئندہ برس صدراتی انتخابات ہونا ہیں جس کے حوالے سے یہ خدشات ظاہر کیے جاتے رہے ہیں کہ اس میں آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے استعمال سے اثر انداز ہونے کی کوشش کی جائے گی۔

مصنوعی ذہانت کی جدید ترین تخلیقی ایپس اب انسان جیسی آوازیں اور انتہائی حقیقت پسندانہ تصویریں، ویڈیوز اور آڈیوز انتہائی قلیل وقت میں تیار کر سکتے ہیں چوں کہ یہ ایپس جعلی ڈیجیٹل مواد کو سوشل میڈیا پر انتہائی تیزی سے پھیلانے اور مخصوص سامعین اور ناظرین تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اس لیے یہ ممکنہ طور پر انتخابی مہم کو متاثر کر سکتے ہیں۔

ماہرین یہ خدشات ظاہر کر تے رہے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کی تیز رفتار ٹیکنالوجی کی تخلیقی ایپس برق رفتاری سے انتخابی مہم کو ہدف بنانے والی ای میلز، الیکٹرانک پیغامات، آڈیوز اور ویڈیوز بنا کر ووٹروں کو گمراہ کر سکتے ہیں جس میں امیدوار کی بالکل اصل جیسی نقلی آواز اور ویڈیوز بھی شامل ہو سکتی ہیں۔ اس کے پیشِ نظر انتخابی مہم کو اس قدر نقصان پہنچ سکتا ہے جس کی اس سے پہلے کوئی نظیر موجود نہیں۔

رواں برس مئی میں امریکہ کے محکمۂ دفاع پینٹاگان کی عمارت کے باہر دھماکے کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں پینٹاگان کی عمارت کے باہر سیاہ دھواں اٹھتا ہوا دکھایا گیا تھا۔ تصویر سے ایسا تاثر مل رہا تھا جیسے عمارت کے باہر دھماکہ ہوا ہے۔کئی بین الاقوامی میڈیا اداروں نے بریکنگ نیوز بھی نشر کی تھی کہ پینٹاگان کے باہر دھماکہ ہوا ہے۔ البتہ امریکی محکمۂ دفاع نے اسے آرٹیفیشل انٹیلی جینس (اے آئی)سے بنائی گئی جعلی تصویر قرار دیا تھا۔

اس رپورٹ میں مواد خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG