امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے سیکیورٹی معاملات پر بریفنگ کے لیے تعاون نہ ملنے پر نو منتخب صدر جو بائیڈن نے اپنے طور پر سفارت کاروں، انٹیلی جنس اور دفاعی ماہرین سے سیکیورٹی اُمور بریفنگ لینا شروع کر دیا ہے۔
منگل کو بریفنگ کے آغاز پر بائیڈن نے کہا کہ "میں تنقید نہیں کر رہا، لیکن میں تاحال وہ بریفنگ نہیں لے سکا جو عموماً اب تک نو منتخب صدر کو دی جاتی ہے۔"
مختلف شعبوں کے ماہرین پر مشتمل اپنے مشیروں سے گفتگو کرتے ہوئے جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ انتخابی مہم کے دوران وہ کہتے رہے ہیں کہ نئے صدر کو ورثے میں منقسم ملک اور انتشار کی شکار دنیا ملے گی۔
جو بائیڈن نے ماہرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ "میری خواہش ہے کہ میرا اندازہ غلط ہو اسی لیے مجھے آپ کے مشوروں کی اشد ضرورت ہے۔"
اُن کا کہنا تھا کہ منقسم ملک اور انتشار کی شکار دنیا جیسے دہرے چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہمیں اپنے ملک میں جمہوریت کو تقویت دینے کے علاوہ دیگر جمہوری اتحادیوں کے ساتھ مل کر مضبوط اتحاد تشکیل دینا ہو گا۔
بائیڈن کا کہنا تھا کہ امریکہ کے صدر کی اس سے بڑی ذمہ داری اور نہیں ہو سکتی کہ وہ امریکی عوام کا تحفظ کرے۔ اُنہوں نے الزام عائد کیا کہ بدقسمتی سے گزشتہ تین سال کے دوران امریکی اداروں کو بہت نقصان پہنچا۔
بائیڈن نے ماہرین سے بریفنگ کے دوران ایسی خارجہ پالیسی تشکیل دینے پر زور دیا جو امریکہ کے عوام کی خواہشات اور اُن کی اقدار کی عکاسی کرتے ہوئے امریکہ کو ایک بار پھر قیادت کرنے والا ملک بنا دے۔
ریاست ڈیلاویئر کے شہر ولمنگٹن میں ہونے والی اس ورچوئل بریفنگ میں امریکی فوج سے ریٹائر ہونے والے دو فوجی جنرل، سات سابق سفارت کار اور سابق نائب وزیرِ خارجہ ٹونی بلنکن نے شرکت کی۔
دریں اثنا امریکہ میں انتقالِ اقتدار اور نو منتخب صدر کے ساتھ تعاون کی ذمہ دار ایجنسی گورنمنٹ سروس ایڈمنسٹریشن (جی ایس اے) کی منتظم ایمیلی مرفی نے انتقالِ اقتدار کی منتقلی کی دستاویزات پر تاحال دستخط نہیں کیے جس کے باعث بائیڈن کی ٹیم کو فنڈز اور وفاقی دفاتر تک رسائی نہیں مل سکی۔
ایجنسی کے ایک ترجمان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس حوالے سے تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔
اُن کے بقول ایجنسی اور اس کی ایڈمنسٹریٹر مروجہ طریقۂ کار اور قانون کے تحت سن 2000 میں کلنٹن انتظامیہ کی مثال کو ذہن میں رکھتے ہوئے کام کریں گے۔
خیال رہے کہ سن 2000 میں ہونے والے انتخابات میں جارج ڈبلیو بش اور اُن کے حریف اُمیدوار ایلگور کے درمیان فلوریڈا میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے تنازع پر تاخیر کے باعث جارج بش کو انتقالِ اقتدار کے مراحل طے کرنے کے لیے صرف پانچ ہفتے ملے تھے۔
بعض وفاقی حکام نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اگر 'جی ایس اے' سرکاری طور پر بائیڈن کی کامیابی کو تسلیم نہیں کرتی تو بھی صدر ٹرمپ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ بائیڈن کو حساس معاملات پر بریفنگ لینے کی اجازت دے سکتے ہیں۔
لیکن تین نومبر کے انتخابات کے بعد سے ہی صدر ٹرمپ ٹوئٹر پر یہ دعوے کر رہے ہیں کہ وہ الیکشن جیت چکے ہیں جب کہ وہ انتخابات میں دھاندلی اور بڑے پیمانے پر ووٹرز فراڈ کے الزامات بھی عائد کر رہے ہیں جس کے شواہد وہ تاحال نہیں دے سکے۔
یاد رہے کہ امریکہ میں تین نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق ڈیمو کریٹک اُمیدوار جو بائیڈن مطلوبہ 270 الیکٹورل ووٹ کا ہدف عبور کر کے امریکہ کے 46ویں صدر منتخب ہو گئے ہیں۔