رسائی کے لنکس

بائیڈن نے عالمی عدالت سے اسرائیلی اور حماس کے رہنماؤں کی گرفتاری کے مطالبے کو مسترد کر دیا


صدر بائیڈن وائٹ ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کے سوالوں کے جواب دے رہے ہیں۔ 23 مئی 2024
صدر بائیڈن وائٹ ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کے سوالوں کے جواب دے رہے ہیں۔ 23 مئی 2024

  • بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ہم عالمی فوجداری عدالت کے دائرہ اختیار کو اس طرح تسلیم نہیں کرتے جیسے اسے استعمال کیا جا رہا ہے۔
  • بائیڈن کا کہنا تھا کہ ہم نہیں سمجھتے کہ جو کچھ اسرائیل نے کیا اور جو کچھ حماس نے کیا، وہ ایک جیسا ہے۔
  • عالمی عدالت میں اسرائیل کے خلاف قتل عام کا مقدمہ جنوبی افریقہ نے دائر کیا ہے۔
  • اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ حماس کے عسکری گروپ سے لڑ رہا ہے نہ کہ عام شہریوں سے۔

امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے جمعرات کو بین الاقوامی فوجداری عدالت کی طرف سے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو، وزیر دفاع یوو گیلنٹ اور غزہ میں حماس کے تین اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف جنگی جرائم کے الزام میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کے مطالبات کو مسترد کر دیا ہے۔

وائٹ ہاؤس میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران ایک نامہ نگار نے بائیڈن سے یہ سوال کیا تھا کہ آیا امریکہ کے پاس ایسا کوئی ثبوت موجود ہے کہ اسرائیل غزہ کی لڑائی میں فلسطینیوں کو بھوکا رکھنے کو ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے، جیسا کہ اس ہفتے عالمی فوجداری عدالت نے الزام لگایا ہے؟

بائیڈن نے اس سوال کا براہ راست تو کوئی جواب نہیں دیا لیکن یہ کہا کہ ہم آئی سی سی کے دائرہ اختیار کو اس طرح تسلیم نہیں کرتے جس طرح سے اس کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ سادہ سی بات ہے۔

بائیڈن طویل عرصے سے اسرائیل کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے جنگ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم نہیں سمجھتے کہ جو کچھ اسرائیل نے کیا اور جو کچھ حماس نے کیا، وہ ایک جیسا ہے۔

اسرائیل نے حماس کے خلاف جنگ، 7 اکتوبر کو حماس کے عسکری گروپ کے ایک بڑے حملے کے جواب میں شروع کی تھی جس میں 1200 افراد ہلاک اور 250 یرغمال بنا لیے گئے تھے۔

غزہ میں اسرائیل کی جوابی کارروائی میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، اب تک 35 ہزار 700 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ غزہ کی وزارت صحت یہ نہیں بتاتی کہ ہلاک ہونے والوں میں کتنے جنگجو اور کتنے عام شہری تھے۔ تاہم اس کا یہ کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے۔

اسرائیل نے حال ہی میں کہا ہے کہ اس نے غزہ جنگ میں اب تک 14000 جنگجو اور 16000 عام شہری مارے ہیں۔

اقوام متحدہ اور امریکہ سمیت دنیا کے اکثر ملک جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں اور کئی مہینوں سے جاری عارضی جنگ بندی کے مذاکرات دونوں جانب سے بعض شرائط کی وجہ سے تعطل کا شکار ہیں۔

عالمی فوجداری عدالت نے جمعرات کو اعلان کیا ہے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کا حکم جاری کرنے سے متعلق جنوبی افریقہ کی درخواست پر جمعے کو اپنا فیصلہ سنائے گی۔

جنوبی افریقہ نے مصر کی سرحد سے ملحق غزہ کی سرحدی شہر رفح پر اسرائیل کے حملے کے بعد گزشتہ ہفتے عالمی عدالت سے استدعا کی تھی کہ وہ جنگ روکنے کے لیے ہنگامی اقدام کرے۔

اقوام متحدہ پہلے ہی رفح میں اسرائیلی حملے کے نتیجے میں بڑی تباہی سے خبردار کر چکی ہے۔​

جنوبی افریقہ نے بین الاقوامی فوجداری عدالت سے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ اسرائیل کو غزہ سے مکمل انخلا کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ، اقوام متحدہ کے اہل کاروں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور صحافیوں کو علاقے تک بلا روک ٹوک رسائی کی اجازت دی جائے۔

یہ درخواست جنوبی افریقہ کی جانب سے اسرائیل پر قتل عام کے الزام کے ساتھ عدالت میں لائے گئے ایک بڑے کیس کا حصہ ہے۔

اسرائیل جنوبی افریقہ کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہہ چکا ہے کہ غزہ جنگ میں اس کا ہدف عام شہری نہیں ہیں بلکہ حماس کا عسکری گروپ ہے جس نے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ کیا تھا۔

(اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات رائٹرز، اے پی اور اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)

فورم

XS
SM
MD
LG