انتخابات میں دوبارہ منتخب ہونے کے ایک روز بعد بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے حزب اختلاف کی جماعتوں کا یہ دعویٰ مسترد کر دیا ہے کہ انتخابات دھاندلی زدہ تھے۔
صحافیوں اور انتخابات کے مبصروں سے ڈھاکہ میں اپنی سرکاری رہائش گاہ پر پیر کے روز بات کرتے ہوئے شیخ حسینہ نے ووٹوں کی شفافیت سے متعلق سوالات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن قیادت سے محروم ہے اور وہ اپنی انتخابی مہم بھرپور طور پر نہیں چلا سکی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ انتخابات مکمل طور پر آزاد اور شفاف تھے اور اس بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
انہوں نے یہ دعوے بھی مسترد کر دیے کہ ان کی پارٹی کے کارکنوں نے مخالفین کو ڈرایا دھمکایا اور ان پر دباؤ ڈالا۔
چیف الیکشن کمشنر کے ایم نور الہدیٰ نے کہا ہے کہ حزب اختلاف کے مطالبوں پر دوبارہ الیکشن نہیں کرائے جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ووٹنگ میں بڑے پیمانے پر بے قاعدگیوں کی اطلاعات موصول نہیں ہوئیں ہیں۔
بنگلہ دیش کے الیکشن کمیشن نے وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی اتحادی جماعتوں کو فاتح قرار دیے دیا ہے تاہم حزب اختلاف نے دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے انتخابی نتائج کو مسترد کر دیا ہے۔
اس سے قبل رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ حسینہ واجد کی جماعت عوامی لیگ کی قیادت میں قائم اتحاد نے اب تک کے نتائج کے مطابق 300 میں سے 280 سے زائد نشتییں جیت لی ہیں جبکہ حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنل پارٹی ' بی این پی ' جس نے 2014 کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا صرف 7 نشستوں پر کامیابی حاصل کر سکی ہے۔
حزب مخالف کے راہنما کمال حسین کا کہنا ہے کہ 'بی این پی' کی قیادت میں قائم انتخابی اتحاد نیشنل یونٹی فرنٹ نے اتوار کے انتخابات کو " ناقص " قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن سے جتنی جلد ممکن ہو سکے غیر جانبدار حکومت کے تحت نئے انتخابات کا مطالبہ کیا ہے۔
خبر رساں ادرے رائٹرز کے مطابق پولنگ کے دن تشدد کے مختلف واقعات میں کم از کم 17 افراد ہلاک ہوئے جبکہ حزب اختلاف نے الزام عائد کیا ہے کہ حکومت نے انتخابات کے دوران یکساں موقع فراہم نہیں کیے۔
کمال حسین نے رائٹرز کو بتایا " ماضی میں بھی خراب انتخابات ہوتے رہے ہیں لیکن میں یہ کہوں گا کہ جس خراب طریقے سے یہ انتخابات ہوئے اس کی پہلے کوئی مثال نہیں۔ "
کمال حسین نے دعویٰ کیا کہ ان کی جماعت کے امیدواروں نے حکمران جماعت کے کارکنوں کو مبینہ طور پر بیلٹ باکسز کو ووٹوں سے بھرتے ہوئے اور دھاندلی کرتے ہوئے دیکھا۔
انہوں نے مزید کہا "صاف و شفاف انتخابات کا کم سے کم معیار بھی ان انتخابات میں موجود نہیں تھا۔ "
کمال حسین نے کہا کہ آئندہ کا لائحہ عمل وضح کرنے کے لئے وہ پیر کو حزب اختلاف کے اتحادی ارکان سے ملاقات کریں گے۔
تاہم حسینہ شیخ کے بیٹے اور عوامی لیگ کے رکن سجیب واجد نے رائٹرز کو بتایا کہ کسی بھی جماعت کو اس کے حق میں ووٹ دینے کے لیے ڈرایا دھمکایا نہیں گیا۔ انہوں نے بنگلہ دیش نینشل پارٹی پر انتخابات سے پہلے پرتشدد واقعات میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا۔
واجد نے ایک ای میل میں کہا " مجموعی طور پر ووٹنگ کے دن پولنگ اسٹیشن پر لوگوں کی طویل قطاریں تھیں اور ووٹنگ کا عمل پرامن رہا۔"
دوسری طرف بنگلہ دیش کے الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ وہ دھاندلی کے الزامات کی چھان بین کرے گا۔
انسانی حقوق کے عالمی ادارے ہیومن رائس واچ کے جنوبی ایشیا کی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی نے ٹوئٹر پر بنگلہ دیش کے انتخابات کی ساکھ پر سوال اٹھائے ہیں۔
" انتخابات سے قبل سینکڑوں کی تعداد میں حزب اختلاف کے اراکان کو، حزب اختلاف کے بقول خود ساختہ الزامات کے تحت حراست میں لے لیا گیا تھا جبکہ حزب اختلاف کے کارکنوں کو مبینہ طور پر حکمراں جماعت کے کارکنوں نے پولنگ اسٹیشن پر جانے سے روکنے کے لیے تشدد کا نشانہ بنایا۔"
حسینہ شیخ کی حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ ان کی جماعت عوامی لیگ کے کارکن حزب اختلاف کے حملوں میں زخمی ہوئے۔
پولیس کے مطابق انتخاب کے دن حکمراں جماعت عوامی لیگ کے 7 اور بنگلہ دیش نینشل پارٹی کے پانچ کارکن ہلاک جبکہ 20 زخمی ہوئے۔