رسائی کے لنکس

بہاولنگر واقعہ: 'پولیس کو پیغام دیا گیا کہ فوج کے ساتھ الجھنے کا یہی انجام ہو گا'


پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع بہاولنگر میں پولیس اور پاکستان آرمی کے اہلکاروں کے درمیان 'جھگڑے کو خوش اسلوبی' سے حل کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ تاہم پنجاب پولیس کے وضاحتی بیان کے بعد واقعے سے متعلق سوالات کم ہونے کے بجائے مزید پیدا ہوگئے ہیں۔

بہاولنگر میں گزشتہ ہفتے پیش آئے واقعے کے بارے دونوں اداروں یعنی پاکستان فوج اور پولیس کے افسران نجی محفلوں اور میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اگرچہ محتاط ہیں لیکن وہ اپنے اپنے محکموں کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔

ایسے میں ہم نے کچھ پولیس افسران، حساس ادارے کے ریٹائرڈ افسران اور وکلا سے رائے لی ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ تعزیراتِ پاکستان میں کسی حاضر سروس آرمی افسر یا اہلکار کو گرفتار کرنے کا کیا قانون ہے؟ ایک آرمی اہلکار کے خلاف اگر ایف آئی ار درج ہوجائے تو اس کی گرفتاری کا کیا طریقہ کار ہے؟ کیا گرفتاری کے لیے پیشگی اجازت لینا پڑتی ہے؟ بہاولنگر واقعے میں پولیس کا کیا قصور ہے اور تھانے جا کر فوج کے اہلکاروں نے کس حد تک اختیارات سے تجاوز کیا ہے؟

پولیس افسران نے اپنی پیشہ ورانہ ڈیوٹی کے باعث اور حساس ادارے کے ریٹائرڈ افسران نے اپنے محکمانہ ایس او پیز کے تحت نام شائع کرانے سے معذرت کی ہے۔

واضح رہے کہ پولیس اور فوج کے درمیان تنازع کا آغاز گزشتہ ہفتے ایک حاضر سروس فوجی افسر کے گھر پر چھاپے اور گرفتاری سے شروع ہوا تھا۔ بعدازاں پولیس اہلکاروں پر تھانے میں گھس کر فوجی اہلکاروں کی جانب سے مبینہ تشدد اور اس کی ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد اس پر تبصرے ہونا شروع ہوئے تھے۔

سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز کے بعد پولیس اور فوج کے افسران نے دس اپریل کو ایک ساتھ بیٹھ کر 'صلح صفائی' کر لی تھی۔

پولیس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق "بہاولنگر میں پیش آنے والے معمولی واقعے کو سوشل میڈیا پر سیاق و سباق سے ہٹ کر اور بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔"

پولیس فوجی اہلکار کو گرفتار کر سکتی ہے یا نہیں؟

فوج کے حاضر سروس افسران کا کہنا ہے کہ پولیس کے پاس آرمی کے اہلکار کو براہِ راست گرفتار کرنے کا کوئی اختیار نہیں۔ اگر فوجی اہلکار کے خلاف قتل کا مقدمہ بھی درج ہو تو اس کی گرفتاری کا باقاعدہ ایک طریقہ کار ہے۔

حاضر فوجی افسران کے مطابق پولیس کی طرف سے گرفتاری کے لیے مطلوب اہلکار کی یونٹ کے انچارج بریگیڈیئر کو خط لکھا جاتا ہے جس میں ایف آئی آر کی کاپی منسلک کی جاتی ہے اور پولیس تفتیش کے دیگر حالات و واقعات بتائے جاتے ہیں۔ یہ نہیں ہوتا کہ آپ ایک آرمی اہلکار کے خلاف مقدمہ درج کر کے اس کے گھر میں گھس جائیں۔

فوجی افسران کے مطابق پولیس کو جب تعزیراتِ پاکستان کا ایکٹ پڑھایا جاتا ہے تو اس میں فوجی اہلکاروں کے خلاف کارروائی سے متعلق بات شامل ہوتی ہے۔

فوج کے حاضر سروس افسران نے اپنے ادارے کے اہلکاروں کے اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اگر بہاولنگر کے ایس ایچ او کے علم میں تھا کہ وہ جہاں چھاپہ مار رہا ہے اور جسے گرفتار کر رہا ہے، وہ آرمی کا حاضر سروس اہلکار ہے تو پھر اس کے ساتھ ایسا ہی ہونا تھا جیسا اہلکار کی گرفتاری کے بعد ہوا۔

ان کے بقول، بہاولنگر واقعے میں ایس ایچ او کی ناقص حکمتِ عملی نظر آتی ہے جس نے پہلے چھاپہ مارا اور اسے تنبہیہ کے بعد اہل خانہ نے چھوڑا۔ لیکن وہ باز نہ آیا اور اس نے تھانے جاکر نئی ایف آئی آر درج کی اور پھر آرمی اہلکار کے گھر والوں کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔

ایک ریٹائرڈ میجر محمد عامر بھٹی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فوجی ملازم پر سول لاء کے ساتھ ساتھ ملٹری لاء بھی نافذالعمل ہوتا ہے۔ اس لیے جب وہ کوئی جرم کرتا ہے تو اس کے خلاف کیس ملٹری کورٹ میں چلتا ہے اور فوجی قانون کے تحت قانونی اور محکمانہ کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔

ان کے بقول، ایسا ہر گز نہیں کہ بہاولنگر واقعے کے بعد فوج اپنے اہلکار کو چھوڑ دے گی یا کوئی رعایت برتے گی بلکہ فوج کی تفتیش و تحقیقات کا پیمانہ سول پولیس سے کافی وسیع اور سخت ہوتا ہے، اس میں کوئی سفارش کام نہیں آتی جو لوگ اس کڑے عمل سے گزرے ہیں وہ اس بات کو بخوبی جانتے ہیں۔

کیا محمد خلیل بااثر افسر ہے جس کے لیے فوج نے بڑی کارروائی کی؟

اس سوال کے جواب میں ایک ریٹائرڈ میجر کا کہنا ہے کہ آرمی میں سینئر افسران کی طرف سے جونئیر اہلکاروں کی عزت نفس کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اگر کسی کے ساتھ کوئی ذاتی مسئلہ درپیش ہو تو اسے حل کروانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ان کے بقول، "اگر آپ کا ماتحت ذہنی طور پر پریشان ہو یا اس کے گھر پولیس ناجائز چھاپے مار رہی ہو، اہلِ خانہ کو ہراساں کیا جا رہا ہو تو وہ کیسے اپنی ڈیوٹی بہتر طور پر سرانجام دے سکتا ہے۔"

'بہاولنگر واقعے سے پولیس فورس کا مورال ڈاؤن ہوا ہے'

پولیس کے بعض افسران کی رائے ہے کہ بہاولنگر واقعے سے پولیس فورس کا مورال ڈاؤن ہوا ہے۔ اس کا ذمہ دار چاہے ایس ایچ او ہے یا ضلع بہاولنگر کا ڈی پی او ہو، لیکن پولیس اہلکاروں کو تھانے کے اندر جا کر مارنے پیٹنے تک بات نہیں جانی چاہیے تھی۔

پولیس افسران کا کہنا ہے کہ اگر غلطی ایس ایچ او کی طرف سے ہوئی تھی تو ڈی پی او کو شکایت کر کے معاملہ حل کروایا جاسکتا تھا۔ ایس ایچ او کے خلاف مقدمہ درج کرکے اسے گرفتار یا معطل بھی کیا جاسکتا تھا۔

پولیس افسران کے مطابق تھانے جاکر پولیس اہلکاروں کو مارپیٹ کرنا آخری آپشن تھا جسے پہلے آپشن کے طور پر استعمال کیا گیا۔

پولیس افسران کے مطابق سوشل میڈیا پر موجود ویڈیو میں نظر آ رہا ہے کہ پولیس اہلکاروں کی تذلیل کی گئی ہے جس سے ملک بھر کی پولیس کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ فوج کے ساتھ الجھنے کا یہی انجام ہو گا۔

ایک حاضر سروس ڈی ایس پی نے کہا کہ پولیس افسران اگرچہ بہاولنگر واقعے پر آپس کے واٹس ایپ گروپوں میں بات چیت کر رہے ہیں اور رائے بھی دے رہے ہیں لیکن وہ کچھ بد دل بھی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "جب آپ کے یونیفارم پر ہاتھ ڈالا جائے گا تو یہ کسی ایک اہلکار کی نہیں بلکہ پورے محکمے کی عزت کا سوال ہوگا، ایسے میں کمانڈ کرنے والے پولیس افسران نے یہ بتانا ہے کہ آپ میں اپنی بات منوانے کی کتنی صلاحیت ہے، مار کھانے کے بعد صلح کرلینا سب سے آسان آپشن ہوتا ہے۔"

ایک پولیس افسر نے رائے دی کہ جو واقعہ گزر گیا اس کو مثال بنا کر ایک جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی جانی چاہیے جس میں دونوں اداروں کے افسران بھی شامل ہوں، تاکہ جس کا جو قصور ہے اسے اس کے مطابق سزا ملے۔

انہوں نے کہا کہ جب تک سزا و جزا کا عمل نہیں ہوگا بہاولنگر جیسے واقعات ہوتے رہیں گے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں یہ پہلا موقع نہیں جب پولیس اور آرمی کے اہلکاروں میں جھگڑا ہوا ہو۔ تین برس قبل مئی 2021 میں کراچی کے علاقے ہاکس بے میں نیوی اور پولیس اہلکاروں کے درمیان جھگرا ہوا تھا جس میں مجموعی طور پر پانچ پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے۔

ہاکس بے واقے کے ایک ماہ بعد جولائی 2021 میں کراچی کے علاقے ڈی ایچ اے میں فوج اور پولیس کے اہلکاروں میں جھگڑا ہوا تھا جس میں ہوائی فائرنگ بھی ہوئی تھی۔ بعد ازاں پندرہ سے بیس فوجی اہلکاروں نے کلفٹن تھانے میں جاکر مارپیٹ کی تھی تاہم پھر معاملہ رفع دفع کروا دیا گیا تھا۔

اسی طرح ستمبر 2016 میں فوج کے دو افسران کا موٹر وے پولیس کے ساتھ جھگڑا ہوا تھا جس کا فوج نے باقاعدہ نوٹس بھی لیا تھا۔ موٹروے پولیس کا کہنا تھا کہ کیپٹن قاسم اور کیپٹن دانیال کو موٹروے قوانین کی خلاف ورزی پر روکا گیا تو انہوں نے مبینہ طور پر اہلکاروں پر تشدد کیا۔

فوجی اہلکاروں پر تعزیراتِ پاکستان لاگو نہیں ہوتا؟

شہروز شبیر چوہان ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ تعزیراتِ پاکستان فوج کے افسران و اہلکاروں اور غیر ملکی سفیروں پر لاگو نہیں ہوتا۔ ان کے بقول، انہیں نہ تو تعزیرات پاکستان کے تحت گرفتار کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی سزا ہوسکتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کا قانون کہتا ہے کہ اگر آپ نے کسی آرمی اہلکار کو قصوروار قرار دے کر اس کے خلاف قانونی کارروائی کرنی ہے تو ملٹری پولیس اس کے لیے بہترین فورم ہے۔ دوسرے آپشن کے طور پر آپ فوج کے ہیڈ کوارٹر جی ایچ کیو درخواست بھجوا سکتے ہیں جہاں جیک ڈپارٹمنٹ اس معاملے پر قانونی کارروائی کرنے کا مجاز ہے۔

شہروز چوہان کے مطابق فوجی افسران کے خلاف سول کورٹ یا ہائی کورٹ میں کیس دائر کیا جا سکتا ہے۔

شہروز کہتے ہیں کہ وکلا بھی بہاولنگر واقعے کو قانونی پہلوؤں سے دیکھ رہے ہیں۔ اگر دونوں ادارے تحقیقات کریں تو شاید دونوں اداروں کے اہلکار قصوروار پائیں اس لیے لگتا ہے کہ دونوں اداروں نے صلح صفائی کو ہی غنیمت جانا۔

انہوں نے کہا کہ پولیس نے بغیر وارنٹ فوجی افسر کے گھر پر چھاپہ مارا جہاں سے تنازع شروع ہوا اور آرمی کے جوانوں نے جو ردعمل دکھایا وہ سوشل میڈیا پر کلپس کی شکل میں موجود ہے۔

ماہرِ قانون محمد معظم پال ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ اس معاملے میں اگرچہ دونوں اداروں کے اہلکاروں کا جرم اور غلطیاں سامنے آئیں، عدالت کی طرف سے جاری ہونے والے وارنٹ گرفتاری کے بغیر گھر میں داخل ہونا پولیس کا پہلا سنگین جرم ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 1997 کے ایکٹ کی دفعہ 740 کے مطابق پولیس کسی گھر میں بغیر وارنٹ داخل نہیں ہوسکتی اور اگر پولیس بغیر وارنٹ داخل ہوئی اور اہل مکان نے اہلکاروں پر تشدد کیا تو اہل مکان پر کوئی جرم نہیں بنتا۔

معظم ایڈووکیٹ کے مطابق پولیس آرمڈ فورسز کے اہلکاروں کو گرفتار کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔ البتہ صرف قتل جیسے سنگین جرم میں پولیس گرفتار کرسکتی ہے مگر اس کے لیے بھی پہلے بریگیڈ کمانڈ سے تحریری اجازت نامہ لازم ہے۔

ویڈیو کلپس میں کیا تھا؟

بہاولنگر واقعے کی متعدد ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہیں جس پر صارفین تبصرے کر رہے ہیں۔ ان میں ایک کلپ جوکہ سب سے زیادہ بار دیکھا گیا وہ اس عنوان کے تحت ہے " بہاولنگر پولیس اہلکار نماز عید ادا کر رہے ہیں اور فوج کے جوان ان کی سکیورٹی پر موجود ہیں۔"

اس کلپ میں پولیس یونیفارم میں نظر آنے والے تین پولیس اہلکاروں کو جو کہ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھے ہیں اور ان کی نگرانی کے لیے آرمی یونیفارم میں ملبوس دو افراد نظر آرہے ہیں جن کے ہاتھوں میں اسلحہ بھی ہے۔ قریب ہی آرمی کی ایک گاڑی بھی کھڑی ہے جس کے قریب بھی تین اہلکار فوجی لباس میں ملبوس ہیں، یوں لگتا ہے کہ یہ کلپ وہاں سے گزرنے والے کسی شخص نے بنایا ہے۔

کچھ کلپس میں پولیس اہلکار اپنے جسموں پر لگے زخموں کو دکھا رہے ہیں اور یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ انہیں مبینہ طور پر مارا پیٹا گیا۔ ان کے دعوؤں کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں صارفین کے تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔ اشتیاق جٹ نامی صارف نے ایک ویڈیو پر تبصرہ کیا کہ "جو لوگ یہ کہتے تھے کہ پولیس والے پکڑتے ہیں اور سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کرتے ہیں وہ آج سن لیں کہ فوج نے پنجاب پولیس کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کردیا ہے۔ ہم اب امید کرتے ہیں کہ یہ غریب لوگوں کے ساتھ ظلم کرنا بند کردیں گے۔"

علی خان نامی شہری نے تھانے سے بھاگتے ہوئے پولیس اہلکاروں کی ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ "جن پولیس اہلکاروں نے کل ریڈ کیا تھا ان پر کل ہی پرچہ ہوگیا تھا۔ آج آسمانوں سے اتری تیسری مخلوق نے خود ان پر دھاوا بول دیا۔

فورم

XS
SM
MD
LG