واشنگٹن —
بغداد میں بم دھماکوں کے ایک نئے سلسلے کے دوران کم از کم 19 افراد ہلاک ہوئے ہیں، ایسے میں جب عراقی سلامتی افواج ایک بڑی کارروائی کی تیاری کر رہی ہیں، تاکہ القاعدہ سے منسلک شدت پسندوں کے زیرِ قبضہ دو مغربی شہروں کو خالی کرالیا جائے۔
یہ ہلاکت خیز واقعہ اتوار کے دِٕن شمالی بغداد کے شعب ضلع میں ہوا، جہاں دو کار بم دھماکے ہوئے۔ یہ شہر کا وہ علاقہ ہے جہاں زیادہ تر شیعہ آبادی رہتی ہے۔ اس واقعے میں کم از کم نو افراد ہلاک اور 25 زخمی ہوئے۔
فوری طور پر اِن بم دھماکوں کی کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی۔ تاہم، سنی باغیوں نےعراقی سلامتی افواج اور وزیر اعظم نوری المالکی کی شیعہ قیادت والی حکومت کے حامیوں کے خلاف حملے تیز کر دیے ہیں۔
یہ بم حملے اُس وقت ہو رہے ہیں جب عراقی فوجیں اور اتحادی قبائلی القاعدہ کی مقامی شاخ سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں، جنھیں عراق کی اسلامی ریاست اور بھگوڑوں پر مشتمل گروہ کے نام سے جانا جاتا ہے، کے خلاف ملک کے مغربی صوبہٴعنبر میں رمادی اور فلوجہ کے شہروں میں کارروائی جاری ہے۔
عراقی اہل کاروں نے بتایا ہے کہ اتوار کو حکومتی افواج نے رمادی پر فضائی حملے شروع کیے ہیں، جن میں 25 شدت پسند ہلاک ہوئے۔
لیفٹیننٹ جنرل رشید فلیح نے، جو عنبر کی فوجی کمان کی قیادت کر رہے ہیں، کہا ہے کہ اِن دونوں شہروں پر دوبارہ مکمل قبضہ حاصل کرنے میں چند روز لگ سکتے ہیں، اور اس لڑائی کی قیادت حکومت کے حامی سنی قبائل کر رہے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اتوار کے دِن کہا کہ شدت پسندوں کے خلاف لڑائی میں امریکہ عراقی افواج کو مدد فراہم کرے گا۔ تاہم، بقول اُن کے، یہ ’اُن کی اپنی لڑائی‘ ہے۔
کیری نے کہا کہ امریکہ کو عراق کی اسلامی ریاست اور بھگوڑوں پر مشتمل گروہ کے ایک بار پھر سر اٹھانے پر’بہت، بہت تشویش‘ ہے، جو دسمبر 2011ء میں علاقے سے بھاگ نکلے تھے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ہفتے کو رات گئے سے فلوجہ میں خاموشی ہے، جہاں شدت پسند اب تک شہر کے مرکز پر قابض ہیں۔
القاعدہ کے شدت پسندوں نے گذشتہ دو ہفتوں سے اِن دونوں شہروں کے زیادہ تر رقبے پر قبضہ جمائے رکھا ہے اور تب ہی سے وہ حکومتی افواج کی پیش قدمی روکے ہوئے ہیں۔
یہ ہلاکت خیز واقعہ اتوار کے دِٕن شمالی بغداد کے شعب ضلع میں ہوا، جہاں دو کار بم دھماکے ہوئے۔ یہ شہر کا وہ علاقہ ہے جہاں زیادہ تر شیعہ آبادی رہتی ہے۔ اس واقعے میں کم از کم نو افراد ہلاک اور 25 زخمی ہوئے۔
فوری طور پر اِن بم دھماکوں کی کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی۔ تاہم، سنی باغیوں نےعراقی سلامتی افواج اور وزیر اعظم نوری المالکی کی شیعہ قیادت والی حکومت کے حامیوں کے خلاف حملے تیز کر دیے ہیں۔
یہ بم حملے اُس وقت ہو رہے ہیں جب عراقی فوجیں اور اتحادی قبائلی القاعدہ کی مقامی شاخ سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں، جنھیں عراق کی اسلامی ریاست اور بھگوڑوں پر مشتمل گروہ کے نام سے جانا جاتا ہے، کے خلاف ملک کے مغربی صوبہٴعنبر میں رمادی اور فلوجہ کے شہروں میں کارروائی جاری ہے۔
عراقی اہل کاروں نے بتایا ہے کہ اتوار کو حکومتی افواج نے رمادی پر فضائی حملے شروع کیے ہیں، جن میں 25 شدت پسند ہلاک ہوئے۔
لیفٹیننٹ جنرل رشید فلیح نے، جو عنبر کی فوجی کمان کی قیادت کر رہے ہیں، کہا ہے کہ اِن دونوں شہروں پر دوبارہ مکمل قبضہ حاصل کرنے میں چند روز لگ سکتے ہیں، اور اس لڑائی کی قیادت حکومت کے حامی سنی قبائل کر رہے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اتوار کے دِن کہا کہ شدت پسندوں کے خلاف لڑائی میں امریکہ عراقی افواج کو مدد فراہم کرے گا۔ تاہم، بقول اُن کے، یہ ’اُن کی اپنی لڑائی‘ ہے۔
کیری نے کہا کہ امریکہ کو عراق کی اسلامی ریاست اور بھگوڑوں پر مشتمل گروہ کے ایک بار پھر سر اٹھانے پر’بہت، بہت تشویش‘ ہے، جو دسمبر 2011ء میں علاقے سے بھاگ نکلے تھے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ہفتے کو رات گئے سے فلوجہ میں خاموشی ہے، جہاں شدت پسند اب تک شہر کے مرکز پر قابض ہیں۔
القاعدہ کے شدت پسندوں نے گذشتہ دو ہفتوں سے اِن دونوں شہروں کے زیادہ تر رقبے پر قبضہ جمائے رکھا ہے اور تب ہی سے وہ حکومتی افواج کی پیش قدمی روکے ہوئے ہیں۔