دوسری جنگ عظیم کو شروع ہوئے تین سال ہو چکے تھے اور ہٹلر کی ایک آبدوزU-158)) بحرا اوقیانوس کو عبور کرتی ہوئی امریکہ کے ساحلوں کے قریب پہنچ چکی تھی ۔ ریاست نارتھ کیرولائنا کے سمندر کی گہرائیاں کسی تنہا بحری جہاز کواپنا نشانہ بنانے کی منتظر تھیں۔
Caribsea نامی مال بردار بحری جہاز کیوبا سے روانہ ہونے کے بعد نارتھ کیرولاینا کے قریب سے گزرتا ہوا شمالی ریاست ورجینیا کی جانب بڑھ رہا تھا۔ اچانک دوتاربیڈو اس سے ٹکرا گئے اور پھر چند ہی منٹ کے بعد یہ جہازسمندر کی تہہ میں بیٹھ گیا۔ جہاز کے عملے کے 28 افراد میں صرف سات زندہ بچے تھے جو جہاز کے ایک ٹوٹے ہوئے تختے پر ایسے سمندر میں بھٹک رہے تھے جہاں مختلف اقسام کی شارکیں افراط میں تھیں۔
اچانک رات کی تاریکی میں ایک آبدوز نے پانی کی سطح پر آکر تیز روشنی ڈال کر ان کی بے سروسامانی کا جائزہ لیا اور دوبارہ لہروں کے نیچے غائب ہوگئی۔ دس گھنٹے بعد سمندر میں بھٹکنے والے ان افراد کو SS Norlindoنامی جہاز نے نکالا اور ایک کوسٹ گارڈ کشتی کے ذریعے ساحل پر پہنچا دیا۔ لگ بھگ دو مہینے بعد SS Norlindoکو بھی ایک آبدوز (U-507)نے نشانہ بنا کر ریاست فلورڈا کے قریب ڈبو دیا۔
اس مہینے ریاست ورجینیا میں Battle of the Atlantic Study Groupنامی رضاکار گروپ قائم ہوا۔ جس کا مقصد تاریخ میں دلچسپی رکھنے والے افرادکو غوطہ خوروں کے تعاون سے دوسری جنگ عظیم کے دوران ڈبوئے جانے والے بحری جہازوں تک پہنچانا تھا۔ تاکہ وہ ان کی زیر آب تصویریں اتاریں اور ان کے بارے میں معلومات اکھٹی کرکے لوگوں تک پہنچائیں۔
مگر دشواری یہ تھی کہ دوسری جنگ عظیم کی سمندری جنگ میں نازی آبدوزوں نے تقریباً ساڑھے تین ہزار مال بردار اور 175 جنگی جہاز ڈبوئے تھے۔ غوطہ خور سمندر کی گہرائیوں میں اپنی پوری عمر صرف کر کے بھی غرق شدہ سارے جہازوں کو تلاش کرکے ان کا ڈیٹا محفوظ نہیں کرسکتے۔
غرق شدہ جہازوں کی ایک بڑی تعداد کی وجہ سے ہی ریاست نارتھ کیرولائنا کے پانیوں کو بحرہ اوقیانوس کا قبرستان (Graveyard of the Atlantic)کہا جاتا ہے۔ مگر اس گروپ کے عہدے داروں کو یقین تھا کہ وہ ساحل سے قریب ڈوبنے والے ان جہازوں تک ضرور پہنچ جائیں گے جن کے مقام کا انہیں اندازہ ہے۔
14 اکتوبر کو جب میں ریاست نارتھ کیرولائنا کے شہر بیوفورٹ سے کشتی میں روانہ ہوا تو میر مقصد Caribseaنامی جہاز کی تصویریں کھینچ کر Battle of the Atlantic Study Groupکے لیے اپنی پہلی پریذٹیشن تیار کرنا تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس غوطہ خوری کے دوران میرا سامنا ایسی شارک مچھلیوں سے بھی ہو گا جو میری کھینچی ہوئی تصاویر کو marine archeologyکے ساتھ ساتھ marine biologyاور شارکوں کے ماہرین وشائقین کی توجہ کا بھی مرکز بنا دیں گی۔ مجھے اتنا ضرور معلوم تھا کہ چند ہفتے پہلے اسی علاقے میں غوطہ لگاتے ہوئے ایک غوطہ خور گروپ کا سامنا ایک دس فٹ کی گریٹ وائٹ (Great White) شارک سے ہوا تھا۔ اسے صرف گزرتے دیکھ کر ہی غوطہ خور ٹیم کے انچارج(ڈائیو ماسٹر)نے اپنا انگوٹھا اٹھا دیا اور تمام غوطہ خور باہر نکل گئے۔ اس واقعے کی تفصیلات آپ اس لنک پر پڑھ سکتے ہیں:
http://www.scubaboard.com/forums/north-carolina/434640-uss-indra-great-white-9-23-discovery-diving-capt-leroy.html
کشتی پر سوار ہونے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ یہ وہی کشتی ہے جس پر سے سمندر میں کودنے والے غوطہ خوروں کے گروپ کاسامنا گریٹ وائٹ شارک سے ہوا تھا۔کشتی کے کپتان لیرائے نے ہمیں ہدایت دی کہ تمام افراد سمندر میں اتر نے کے بعد اپنے گردوپیش کا بغور جائزہ لیا کیونکہ مذکورہ گریٹ وائٹ اسی علاقے میں دیکھی گئی تھی۔
گریٹ وائٹ عموماً ریاست میسا چوسٹس کے علاقے کیپ کاڈ میں پائی جاتی ہے۔ مگر سال کے آخر میں جب پانی ٹھنڈا ہونے لگتا ہے تو وہ جنوبی امریکی ریاستوں کے سمندروں کا بھی رخ کرلیتی ہے۔ شارک مچھلیوں کے سلسلے میں یہ بتانا ضروری ہے۔ جب Peter Benchleyنے اپنا مشہور ناول Jawsلکھا تو اس نے ساری سمندری مخلوق میں سے جسے ولن کے طور پر چناتھا وہ گریٹ وائٹ تھی۔ شارک مچھلیوں پر تحقیق خاصی کم ہوتی ہے مگر آبی حیات کے ماہرین اس پر متفق ہیں کہ خطرناکی اور خونحواری میں گریٹ وائٹ سرفہرست ہے۔
’انٹرنیشنل شارک اٹیک فائل ‘انسانوں پر شارک مچھلیوں کے حملوں کی تحقیق کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ اس کے اعداد و شمار کے مطابق2011ء تک شارک کی اس نسل کے انسانوں پر 272 حملے ریکارڈ کیے جاچکے تھے۔ جن میں سے 72 اپنی زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ شارک کی باقی تمام اقسام میں سے انسانوں پر حملے کی سب سے زیادہ صلاحیت گریٹ وائٹ میں ہے ۔ اس کے علاوہ شارک کی تین اور اقسام بھی انسانوں پر حملوں میں پیش پیش رہتی ہیں جو Bull Shark, Tiger sharkاور Sand Tiger Shark جسے Ragged Toothکہلاتی ہیں۔ مزید تفصیلات کے لیے یہ لنک دیکھیئے۔
http://www.flmnh.ufl.edu/fish/sharks/statistics/species3.htm
اس روز سمندر میں گہرا سکوت تھا ، لہروں تک کا ارتعاش محسوس نہیں ہورہا تھا۔ ۔پانی میں غوطہ لگانے کے بعد جب میں کچھ گہرائی میں پہنچا تو اپنے آس پاس صرف 30 فٹ تک دیکھ سکتاتھا۔ ہم جس غرق شدہ جہاز کی تلاش میں اترے تھے ، ہمیں وہ کچھ ہی فاصلے پر نظر آیا۔ جہاز ملبے کا ایک ڈھیر بن چکا تھا۔ مجھے ٹوٹے پھوٹے جہازوں کے بجائے قدرے درست حالت کے بحری جہازوں کی تصویریں بنانے میں زیادہ لطف آتا ہے۔ کیونکہ انہیں دیکھ کر آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ ان پر زندگی کے معمولات کیسے ہوں گے اور ان کے روز وشب کیسے گذرتے ہوں گے۔ کون کہاں سوتا ہوگا اور کس جگہ کھانا کھایا جاتا ہو گا۔ مگر Caribsea کی حالت تو بہت ہی خستہ تھی تارپیڈو تو ویسے ہی جہازوں کو توڑ پھوڑ کررکھ دیتے ہیں مگر اس بحری جہاز کو تو سمندر کی تہہ سے لگے آدھی صدی سے زیادہ گذر چکی تھی۔چنانچہ اس کی حالت بہت ہی خستہ تھی۔ لکڑی مکمل طور پر غائب ہوچکی تھی اور بچاکچا لوہا بھی گل کر اور زنگ میں ڈھل کر ختم ہورہاتھا۔ میں نے جہاز کے گرد تیرتے ہوئے اس کے مختلف حصوں کی تصویریں اتاریں اور اپنی ذہن میں اپنی پریذٹیشن کا نقشہ بنانے لگا جو میں Battle of the Atlantic Study Groupکو دینا چاہتا تھا۔
پھر اینکر لائن سے لٹکتے وقت میں نے مچھلیوں کے جھرمٹ میں ایک ایسا سایہ دیکھا جو بڑی مچھلی کا دکھائی پڑتا تھا۔ جب میں نے اس کا تعاقب کیا تووہ کم از کم دس فٹ لمبی سینڈ ٹائیگر شارک تھی۔ اس کے پیچھے تیرتے ہوئے میں ایسی جگہ پہنچ گیا تھا جہاں وہ اکیلی نہیں تھی۔ وہاں اس نسل کی اوربھی شارکیں موجود تھیں۔ اس نسل کے انسانوں پر 31 حملوں کا ریکارڈ موجود ہے جن میں سے دو افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اگرچہ اس کے قریب تیرنا زیادہ خطرناک تو نہیں تھا مگر پھر بھی احتیاط ضروری تھی۔ ایسی صورتحال میں بہتر یہی ہوتا ہے کہ آپ تیرنے کے لیے اپنے پاؤں کو حرکت دینا روک دیں ٕ اور neutral buoyancy کی صورت حال پیدا کرلیں ۔آپ بالکل ساکت ہوں ۔ ڈوب بھی نہ رہے ہوں اور اوپر سطح کی جانب بھی نہ بڑھ رہے ہوں ۔ شارک مچھلیاں اس کیفیت کا زیادہ نوٹس نہیں لیتیں ۔ پھر آپ بہت آہستہ آہستہ کسی ایسی شارک کی طرف بڑھیں جو یا تو کسی ایک جگہ ٹہری ہوئی ہو یا بہت آہستہ سے تیر رہی ہو۔
میرے کیمرے پر لگی ہوئی لایٹ کی رینج صرف چار فٹ ہوتی ہے۔ یعنی ایک ایسی تصویر جس میں شارک پر لائٹ پڑ رہی ہو اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ شارک اور آپ کا درمیانی فاصلہ چار فٹ سے کم ہو۔ یہ بةت مشکل کام ہے کیونکہ عام طور پر قریب جانے سے مچھلیاں بھاگ جاتی ہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اتنے بڑے جانور کو اتنے کم فاصلے سے فوکس کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ لیکن خوش قسمتی سے اس وقت میں چونکہ ایک غرق شدہ جہاز کی تصویریں اتارنے کے لیے پانی میں اتراتھا اس لیے میرے کیمرے پر وائیڈ اینگل لینز لگا ہواتھا ۔ چنانچہ یہ خصوصی لینز شارکوں کو فریم میں رکھنے کے لیے کافی مفید ثابت ہوا۔
آج ان تمام تصویروں کو دیکھ کر سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ شارک انسان کے لیے کتنی خطرناک ہے۔ آج سے دو سال پہلے ماہرین کا یہ کہناتھا کہ شارک انسان کے لیے زیادہ خطرناک نہیں ہے ۔ اسے ایک سمندری بلا کے طور پر پیش کرنے والے اصل میں اپنا ناول بیچنا چاہتے ہیں۔
لیکن اس سال دنیا کے مختلف حصوں میں شارکوں نے انسانوں پر چند ایسے ہیبت ناک حملے کیے ہیں کہ اس سلسلےمیں ماضی کی تحقیقات اور تصورات پر سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔ مصر میں شرم الشیخ میں تین روسی اور ایک یوکرین کے ایک باشندے کو شارکوں نے حملہ کر کے زخمی کر دیا۔ اس واقعہ کے چار روز کے بعد اسی جگہ ایک شارک نے حملہ کرکے ایک جرمن خاتون کو ہلاک کردیا جس کے فوراً بعد اس علاقے کو سیاحوں کے لیے بند کردیا۔ ان حملوں کےبعد ٹیلیفون پر میری George H. Burgessسے بات ہوئی۔ جنہیں انٹرنیشنل شارک اٹیک فائل نے ان حملوں کی تحقیق کے لیے مصر روانہ کیا تھا۔ اس وقت تک ان کی رپورٹ تیار نہیں ہوئی تھی مگر ان کا کہنا تھا کہ شارک اتنا خطرناک جانور نہیں ہے جتنا کہ اسے فلموں میں دکھایا جاتا ہے، لیکن اگر اس کی لمبائی چھ فٹ سے زیادہ ہوتو اس کے قریب جاتے ہوئے احتیاط کرنی چاہے۔
Caribsea نامی مال بردار بحری جہاز کیوبا سے روانہ ہونے کے بعد نارتھ کیرولاینا کے قریب سے گزرتا ہوا شمالی ریاست ورجینیا کی جانب بڑھ رہا تھا۔ اچانک دوتاربیڈو اس سے ٹکرا گئے اور پھر چند ہی منٹ کے بعد یہ جہازسمندر کی تہہ میں بیٹھ گیا۔ جہاز کے عملے کے 28 افراد میں صرف سات زندہ بچے تھے جو جہاز کے ایک ٹوٹے ہوئے تختے پر ایسے سمندر میں بھٹک رہے تھے جہاں مختلف اقسام کی شارکیں افراط میں تھیں۔
اچانک رات کی تاریکی میں ایک آبدوز نے پانی کی سطح پر آکر تیز روشنی ڈال کر ان کی بے سروسامانی کا جائزہ لیا اور دوبارہ لہروں کے نیچے غائب ہوگئی۔ دس گھنٹے بعد سمندر میں بھٹکنے والے ان افراد کو SS Norlindoنامی جہاز نے نکالا اور ایک کوسٹ گارڈ کشتی کے ذریعے ساحل پر پہنچا دیا۔ لگ بھگ دو مہینے بعد SS Norlindoکو بھی ایک آبدوز (U-507)نے نشانہ بنا کر ریاست فلورڈا کے قریب ڈبو دیا۔
اس مہینے ریاست ورجینیا میں Battle of the Atlantic Study Groupنامی رضاکار گروپ قائم ہوا۔ جس کا مقصد تاریخ میں دلچسپی رکھنے والے افرادکو غوطہ خوروں کے تعاون سے دوسری جنگ عظیم کے دوران ڈبوئے جانے والے بحری جہازوں تک پہنچانا تھا۔ تاکہ وہ ان کی زیر آب تصویریں اتاریں اور ان کے بارے میں معلومات اکھٹی کرکے لوگوں تک پہنچائیں۔
مگر دشواری یہ تھی کہ دوسری جنگ عظیم کی سمندری جنگ میں نازی آبدوزوں نے تقریباً ساڑھے تین ہزار مال بردار اور 175 جنگی جہاز ڈبوئے تھے۔ غوطہ خور سمندر کی گہرائیوں میں اپنی پوری عمر صرف کر کے بھی غرق شدہ سارے جہازوں کو تلاش کرکے ان کا ڈیٹا محفوظ نہیں کرسکتے۔
غرق شدہ جہازوں کی ایک بڑی تعداد کی وجہ سے ہی ریاست نارتھ کیرولائنا کے پانیوں کو بحرہ اوقیانوس کا قبرستان (Graveyard of the Atlantic)کہا جاتا ہے۔ مگر اس گروپ کے عہدے داروں کو یقین تھا کہ وہ ساحل سے قریب ڈوبنے والے ان جہازوں تک ضرور پہنچ جائیں گے جن کے مقام کا انہیں اندازہ ہے۔
14 اکتوبر کو جب میں ریاست نارتھ کیرولائنا کے شہر بیوفورٹ سے کشتی میں روانہ ہوا تو میر مقصد Caribseaنامی جہاز کی تصویریں کھینچ کر Battle of the Atlantic Study Groupکے لیے اپنی پہلی پریذٹیشن تیار کرنا تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس غوطہ خوری کے دوران میرا سامنا ایسی شارک مچھلیوں سے بھی ہو گا جو میری کھینچی ہوئی تصاویر کو marine archeologyکے ساتھ ساتھ marine biologyاور شارکوں کے ماہرین وشائقین کی توجہ کا بھی مرکز بنا دیں گی۔ مجھے اتنا ضرور معلوم تھا کہ چند ہفتے پہلے اسی علاقے میں غوطہ لگاتے ہوئے ایک غوطہ خور گروپ کا سامنا ایک دس فٹ کی گریٹ وائٹ (Great White) شارک سے ہوا تھا۔ اسے صرف گزرتے دیکھ کر ہی غوطہ خور ٹیم کے انچارج(ڈائیو ماسٹر)نے اپنا انگوٹھا اٹھا دیا اور تمام غوطہ خور باہر نکل گئے۔ اس واقعے کی تفصیلات آپ اس لنک پر پڑھ سکتے ہیں:
http://www.scubaboard.com/forums/north-carolina/434640-uss-indra-great-white-9-23-discovery-diving-capt-leroy.html
کشتی پر سوار ہونے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ یہ وہی کشتی ہے جس پر سے سمندر میں کودنے والے غوطہ خوروں کے گروپ کاسامنا گریٹ وائٹ شارک سے ہوا تھا۔کشتی کے کپتان لیرائے نے ہمیں ہدایت دی کہ تمام افراد سمندر میں اتر نے کے بعد اپنے گردوپیش کا بغور جائزہ لیا کیونکہ مذکورہ گریٹ وائٹ اسی علاقے میں دیکھی گئی تھی۔
گریٹ وائٹ عموماً ریاست میسا چوسٹس کے علاقے کیپ کاڈ میں پائی جاتی ہے۔ مگر سال کے آخر میں جب پانی ٹھنڈا ہونے لگتا ہے تو وہ جنوبی امریکی ریاستوں کے سمندروں کا بھی رخ کرلیتی ہے۔ شارک مچھلیوں کے سلسلے میں یہ بتانا ضروری ہے۔ جب Peter Benchleyنے اپنا مشہور ناول Jawsلکھا تو اس نے ساری سمندری مخلوق میں سے جسے ولن کے طور پر چناتھا وہ گریٹ وائٹ تھی۔ شارک مچھلیوں پر تحقیق خاصی کم ہوتی ہے مگر آبی حیات کے ماہرین اس پر متفق ہیں کہ خطرناکی اور خونحواری میں گریٹ وائٹ سرفہرست ہے۔
’انٹرنیشنل شارک اٹیک فائل ‘انسانوں پر شارک مچھلیوں کے حملوں کی تحقیق کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ اس کے اعداد و شمار کے مطابق2011ء تک شارک کی اس نسل کے انسانوں پر 272 حملے ریکارڈ کیے جاچکے تھے۔ جن میں سے 72 اپنی زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ شارک کی باقی تمام اقسام میں سے انسانوں پر حملے کی سب سے زیادہ صلاحیت گریٹ وائٹ میں ہے ۔ اس کے علاوہ شارک کی تین اور اقسام بھی انسانوں پر حملوں میں پیش پیش رہتی ہیں جو Bull Shark, Tiger sharkاور Sand Tiger Shark جسے Ragged Toothکہلاتی ہیں۔ مزید تفصیلات کے لیے یہ لنک دیکھیئے۔
http://www.flmnh.ufl.edu/fish/sharks/statistics/species3.htm
اس روز سمندر میں گہرا سکوت تھا ، لہروں تک کا ارتعاش محسوس نہیں ہورہا تھا۔ ۔پانی میں غوطہ لگانے کے بعد جب میں کچھ گہرائی میں پہنچا تو اپنے آس پاس صرف 30 فٹ تک دیکھ سکتاتھا۔ ہم جس غرق شدہ جہاز کی تلاش میں اترے تھے ، ہمیں وہ کچھ ہی فاصلے پر نظر آیا۔ جہاز ملبے کا ایک ڈھیر بن چکا تھا۔ مجھے ٹوٹے پھوٹے جہازوں کے بجائے قدرے درست حالت کے بحری جہازوں کی تصویریں بنانے میں زیادہ لطف آتا ہے۔ کیونکہ انہیں دیکھ کر آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ ان پر زندگی کے معمولات کیسے ہوں گے اور ان کے روز وشب کیسے گذرتے ہوں گے۔ کون کہاں سوتا ہوگا اور کس جگہ کھانا کھایا جاتا ہو گا۔ مگر Caribsea کی حالت تو بہت ہی خستہ تھی تارپیڈو تو ویسے ہی جہازوں کو توڑ پھوڑ کررکھ دیتے ہیں مگر اس بحری جہاز کو تو سمندر کی تہہ سے لگے آدھی صدی سے زیادہ گذر چکی تھی۔چنانچہ اس کی حالت بہت ہی خستہ تھی۔ لکڑی مکمل طور پر غائب ہوچکی تھی اور بچاکچا لوہا بھی گل کر اور زنگ میں ڈھل کر ختم ہورہاتھا۔ میں نے جہاز کے گرد تیرتے ہوئے اس کے مختلف حصوں کی تصویریں اتاریں اور اپنی ذہن میں اپنی پریذٹیشن کا نقشہ بنانے لگا جو میں Battle of the Atlantic Study Groupکو دینا چاہتا تھا۔
پھر اینکر لائن سے لٹکتے وقت میں نے مچھلیوں کے جھرمٹ میں ایک ایسا سایہ دیکھا جو بڑی مچھلی کا دکھائی پڑتا تھا۔ جب میں نے اس کا تعاقب کیا تووہ کم از کم دس فٹ لمبی سینڈ ٹائیگر شارک تھی۔ اس کے پیچھے تیرتے ہوئے میں ایسی جگہ پہنچ گیا تھا جہاں وہ اکیلی نہیں تھی۔ وہاں اس نسل کی اوربھی شارکیں موجود تھیں۔ اس نسل کے انسانوں پر 31 حملوں کا ریکارڈ موجود ہے جن میں سے دو افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اگرچہ اس کے قریب تیرنا زیادہ خطرناک تو نہیں تھا مگر پھر بھی احتیاط ضروری تھی۔ ایسی صورتحال میں بہتر یہی ہوتا ہے کہ آپ تیرنے کے لیے اپنے پاؤں کو حرکت دینا روک دیں ٕ اور neutral buoyancy کی صورت حال پیدا کرلیں ۔آپ بالکل ساکت ہوں ۔ ڈوب بھی نہ رہے ہوں اور اوپر سطح کی جانب بھی نہ بڑھ رہے ہوں ۔ شارک مچھلیاں اس کیفیت کا زیادہ نوٹس نہیں لیتیں ۔ پھر آپ بہت آہستہ آہستہ کسی ایسی شارک کی طرف بڑھیں جو یا تو کسی ایک جگہ ٹہری ہوئی ہو یا بہت آہستہ سے تیر رہی ہو۔
میرے کیمرے پر لگی ہوئی لایٹ کی رینج صرف چار فٹ ہوتی ہے۔ یعنی ایک ایسی تصویر جس میں شارک پر لائٹ پڑ رہی ہو اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ شارک اور آپ کا درمیانی فاصلہ چار فٹ سے کم ہو۔ یہ بةت مشکل کام ہے کیونکہ عام طور پر قریب جانے سے مچھلیاں بھاگ جاتی ہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اتنے بڑے جانور کو اتنے کم فاصلے سے فوکس کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ لیکن خوش قسمتی سے اس وقت میں چونکہ ایک غرق شدہ جہاز کی تصویریں اتارنے کے لیے پانی میں اتراتھا اس لیے میرے کیمرے پر وائیڈ اینگل لینز لگا ہواتھا ۔ چنانچہ یہ خصوصی لینز شارکوں کو فریم میں رکھنے کے لیے کافی مفید ثابت ہوا۔
آج ان تمام تصویروں کو دیکھ کر سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ شارک انسان کے لیے کتنی خطرناک ہے۔ آج سے دو سال پہلے ماہرین کا یہ کہناتھا کہ شارک انسان کے لیے زیادہ خطرناک نہیں ہے ۔ اسے ایک سمندری بلا کے طور پر پیش کرنے والے اصل میں اپنا ناول بیچنا چاہتے ہیں۔
لیکن اس سال دنیا کے مختلف حصوں میں شارکوں نے انسانوں پر چند ایسے ہیبت ناک حملے کیے ہیں کہ اس سلسلےمیں ماضی کی تحقیقات اور تصورات پر سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔ مصر میں شرم الشیخ میں تین روسی اور ایک یوکرین کے ایک باشندے کو شارکوں نے حملہ کر کے زخمی کر دیا۔ اس واقعہ کے چار روز کے بعد اسی جگہ ایک شارک نے حملہ کرکے ایک جرمن خاتون کو ہلاک کردیا جس کے فوراً بعد اس علاقے کو سیاحوں کے لیے بند کردیا۔ ان حملوں کےبعد ٹیلیفون پر میری George H. Burgessسے بات ہوئی۔ جنہیں انٹرنیشنل شارک اٹیک فائل نے ان حملوں کی تحقیق کے لیے مصر روانہ کیا تھا۔ اس وقت تک ان کی رپورٹ تیار نہیں ہوئی تھی مگر ان کا کہنا تھا کہ شارک اتنا خطرناک جانور نہیں ہے جتنا کہ اسے فلموں میں دکھایا جاتا ہے، لیکن اگر اس کی لمبائی چھ فٹ سے زیادہ ہوتو اس کے قریب جاتے ہوئے احتیاط کرنی چاہے۔