رسائی کے لنکس

ایران سمیت، اسد کے ساتھیوں کی بَری حملے کی تیاری: ذرائع


اس سے ایران اور حزب اللہ کی شکل میں، روس اور اسد کے دیگر کلیدی اتحادیوں کے درمیان ابھرتے ہوئے فوجی اتحاد کا پتا چلتا ہے، جس کی توجہ شمال مغربی شام کے مفتوحہ علاقوں کی جانب مرتکز ہے، جنھیں اس سال کے اوائل میں باغیوں نے تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے قبضہ کر لیا تھا

گذشتہ 10 روز کے دوران سینکڑوں ایرانی فوجیں شام پہنچ چکی ہیں اور وہ بہت جلد سرکاری افواج اور لبنانی حزب اللہ کے اتحادیوں سے مل کر اہم بَری کارروائی میں حصہ لیں گی، جنھیں روسی فضائی امداد حاصل ہوگی۔ یہ بات دو لبنانی ذرائع نے رائٹرز کو بتائی ہے۔

تنازع کے سیاسی اور فوجی مضمرات سے واقف ذرائع میں سے ایک کا کہنا ہے کہ ’مستقبل قریب میں روسی فضائی حملے زمینی پیش قدمی پر مشتمل ہوں گے، جن میں شامی فوج اور اُن کے اتحادی شامل ہوں گے‘۔

ذریعے نے مزید بتایا کہ ’عین ممکن ہے کہ یہ بَری کارروائی ادلب اور ہما کے دیہی علاقوں میں مرتکز رہے‘۔

دونوں ذرائع نے بتایا ہے کہ اس کارروائی کا مقصد اُس علاقے کو واپس لینا ہے جو باغیوں نے صدر بشارالاسد کی حکومت سے چھین لیے تھے۔

اس سے ایران اور حزب اللہ کی شکل میں، روس اور اسد کے دیگر کلیدی اتحادیوں کے درمیان ابھرتے ہوئے فوجی اتحاد کا پتا چلتا ہے، جس کی توجہ شمال مغربی شام کے مفتوحہ علاقوں کی جانب مرتکز ہے، جنھیں اس سال کے اوائل میں باغیوں نے تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے قبضہ کر لیا تھا۔

دوسرے ذریعے نے بتایا کہ ’ایرانی بَری افواج کے ہراول دستے کی شام آمد کا آغاز ہوچکا ہے، جس میں فوجی اور اہل کار شامل ہیں، جن کا خصوصی مقصد اس لڑائی میں شرکت کرنا ہے۔ وہ مشیر نہیں ہیں۔ یعنی سینکڑوں فوجی ہوں گے جو اسلحے اور ہتھیاروں سے مسلح ہوں گے۔ اس کے بعد، ایک اور جتھے کی آمد متوقع ہے‘۔ ذرائع نے بتایا کہ اس کارروائی میں عراقی بھی شریک ہوں گے۔

اب تک اسد کے لیے براہ راست ایرانی فوجی حمایت زیادہ تر فوجی مشیروں کی صورت میں فراہم ہوتی رہی ہے۔ ایران نے شیعہ ملیشیا کے لڑاکوں کو بھی تعینات کردیا ہے جس میں عراقی اور کچھ افغانی بھی شامل ہیں، جو شام کی سرکاری افواج کے ہمراہ لڑ رہے ہیں۔

لبنان کی حزب اللہ، جسے ایران کی پشت پناہی حاصل ہے، وہ تنازع کے اوائل سے شامی فوج کے ہمراہ لڑتی رہی ہے۔

روسی فضائیہ نے بدھ کے روز شام میں فضائی کارروائیاں شروع کردی ہیں، جن میںٕ ملک کے مغرب میں حمص اور ہما کے شہروں کے قریبی علاقوں کو ہدف بنایا جا رہا ہے، جہاں اسد کی افواج باغیوں کے کئی گروہوں سے لڑ رہے ہیں، حالانکہ یہ داعش نہیں ہے، جو زیادہ تر ملک کے شمال اور مشرق میں سرگرم ہے۔

باغی گروہوں کا اتحاد، جس میں القاعدہ سے منسلک نصرہ محاذ اور طاقتور احرار الشام نے اس سال کے اوائل میں صوبہ اندلب میں تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے، ترکی کے ساتھ متصل سرحدی علاقے سے سرکاری فوج کا صفایا کر دیا ہے۔

XS
SM
MD
LG