کراچی کی سرزمین پر کچھ دنوں بعد نظرآنے والے ایک منظر کی پیشگی روداد سنئے۔۔’ویٹی کن سٹی کی سب سے معتبر شخصیت جنہیں دنیا کے ہر کونے میں رہنے والے لوگ پوپ فرانسیس کے نام سے جانتے ہیں۔۔ وہ ۔۔اور بشپ آف کنٹربری ۔۔کراچی آئے ہوئے ہیں۔ان کے ہاتھوں کراچی میں ایشیاء کی سب سے بڑی صلیب کا افتتاح ہونا ہے۔ ‘
افتتاح کے ساتھ ہی کراچی کو ایک ایسا لینڈ مارک مل جائے گا جو ابھی تک اسے حاصل نہیں۔ مزار قائد اعظم اور حبیب بینک پلازہ کی فلک بوس عمارت کراچی کے ماضی کو بیان کرتے لینڈ مارکس ضرور ہیں، لیکن جدید اور ایسا لینڈ مارک جو پاکستان میں بسنے والی اقلیتی برادری کی بھی نمائندگی کرے ۔۔ وہ کچھ دن بعد ہی ممکن ہوسکے گا۔
’پیس کمیشن فار انٹر فیتھ ہارمنی‘ کے سینئر وائس چیئرمین، مائیکل جاوید وائس آف امریکہ کو بتایا: ’بے شک اس منظر کے حقیقت کا روپ لینے میں ابھی کچھ دن لگیں گے۔ لیکن، کراچی کے افق پر دنیا بہت جلد ایک ایسی صلیب دیکھ سکے گی جو مذہبی ہم آہنگی کے حوالے سے اپنی مثال آپ ہوگی۔ کم ازکم کراچی اور پاکستان بھر میں ابھی تک ایسی کوئی نظیر دیکھنے کو نہیں ملتی۔ اس کے افتتاح کے لئے، ہم نے پوپ فرانسیس اور بشپ آف کنٹربری کو پاکستان آنے کی دعوت دی ہے۔‘
کنکریٹ اور اسٹیل سے بننے والی اس صلیب کے بارے میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ ایشیاء کی سب سے بڑی صلیب ہوگی۔ 140 فٹ اونچی اور 20 فٹ گہری۔
اس صلیب کے ڈونر پرویز ہنری گل بتاتے ہیں کہ یہ ’پاکستان میں رہنے والی اقلیتوں کی نمائندگی کو ظاہر کرے گی۔‘
صلیب کہاں ہے فی الحال سیکورٹی کی غرض سے اس مقام کو خفیہ رکھا جارہا ہے۔ مائیکل جاوید نے بتایا کہ ’صلیب کی وجہ سے قبرستان کو لاحق خطرات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی صورتحال میں جبکہ کچھ شرارتی لڑکے بار بار قبرستان کی حفاظتی دیوار تک توڑ دیتے ہیں، ایسے میں ہمارے لئے سیکورٹی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ لیکن یہ خدا کا کام ہے اور خدا ہی اس کی حفاظت کرے گا۔‘
صلیب کے اخراجات ہنری گل نامی ایک مشہور سماجی شخصیت اٹھا رہی ہے جبکہ پرویز ہنری گل تعمیراتی کاموں کی نگرانی کر رہے ہیں۔ اس کے ۔آرکیٹیکٹ موسی گل ہیں، جنہوں اس ایک اہم نقطے کو ’معجزہ‘ قرار دیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’یہاں زیر زمین صرف تین فٹ کی گہرائی پر پانی نکل آتا ہے۔ لیکن صلیب کی بنیادوں کے لئے ہم نے 20فٹ تک گہری کھدائی کی، مگر پانی کا کہیں نام و نشان تک نہیں ملا۔ ‘
پرویز گل نے کہا کہ ’اقلیتوں کے حوالے سے دنیا میں پاکستان کا امیج منفی ہے، جبکہ یہ صلیب اس منفی امیج کو درست کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔ ساتھ ہی اس سے اقلیتوں میں پایا جانا والا دباوٴ اور ڈپریشن کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ میری معلومات کے مطابق، اتنی بڑی صلیب ایشیا بھر میں کہیں نہیں۔ پول وغیرہ ہوں گے۔ لیکن، کراس کہیں بھی اتنا بڑا نہیں۔‘
ادھر موسیٰ گل کا کہنا ہے ’صلیب کی ایک اور سب سے منفرد بات یہ ہے کہ اس کی تعمیراتی ٹیم میں مسلمان کاریگر بھی شامل ہیں۔ ابتدا سے اب تک تقریباً200 کاریگر اس کام میں شامل رہے ہیں اور اس تعداد میں مسلمان کاریگروں کی تعداد تقریباً نصف یا اس سے زیادہ رہی ہے۔ شروع شروع میں کچھ لوگ صلیب کی تعمیر میں حصہ لینے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھے۔ لیکن، اب تعمیراتی ٹیم میں مسلمان اور عیسائی دونوں مل کرکام کررہے ہیں۔‘