رسائی کے لنکس

امریکہ پچھلے دس برسوں میں تیزی سے بوڑھا کیوں ہوا؟


 امریکہ میں عمر رسیدہ افراد ، فوٹو اے پی
امریکہ میں عمر رسیدہ افراد ، فوٹو اے پی

امریکہ میں پچھلے دس سال کے دوران سینئیر یا بزرگ افراد کی تعداد میں اضافہ اور شرح پیدائش میں کمی ہوئی ہے۔اس کا اندازہ جمعرات کو جاری ہونے والے مردم شماری کے تازہ ترین نتائج کے جائزےسے لگایا جاسکتا ہے۔

کہانی کچھ یوں ہے کہ امریکہ میں دو عالمی جنگوں کے بعد بیسیوں صدی کے وسط میں، یعنی 1946 سے 1964 تک ملک کے سیاسی ، سماجی، معاشی اور مجموعی حالات بہتر ہونے کے بعد بچوں کی پیدائش میں بڑی تعداد میں اضافے سے امریکہ کی آبادی تیزی سے بڑھی ۔ ان بچوں کو بےبی بومرز یا بومرز کا نام دیا گیا۔ 2020 میں ختم ہونے والی دہائی کے دوران ان بے بی بومرز کی جنریشن بڑھاپے کی عمر تک پہنچ گئی جس کے نتیجے میں ملک میں معمر افراد کی تعداد بھی تیزی سے بڑھتی ہوئی دکھائی دی ۔

جمعرات کو جاری ہونے والے مردم شماری کے نئے اعداد و شمار کے مطابق 2010 سے 2020 تک امریکہ کی آبادی میں 65 سال یا اس سے زیادہ عمر کے امریکی باشندوں کی تعداد ایک تہائی سے زیادہ بڑھ گئی جب کہ پیدائش کی شرح میں کمی ہوئی جس کے نتیجے میں بچوں کی تعداد خاص طور سے پانچ سال سے کم عمر بچوں کی تعداد میں کمی ہوئی ۔

اعداد و شمار کے مطابق آبادی میں 65 سال یا اس سے زیادہ عمر کے افراد کی تعداد میں گزشتہ دہائی میں ہونے والا ایک تہائی سے زیادہ کا اضافہ 130 برسوں میں سب سے زیادہ اضافہ تھا ، جب کہ بچوں کی تعداد میں کمی بھی قابل ذکر تھی ۔اس مردم شماری سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ امریکہ میں گزشتہ دس برسوں میں درمیانی عمر کے لوگوں کی تعداد 37 اعشاریہ 2 فیصد سے بڑھ کر 38 اعشاریہ 8 ہو گئی ۔

آبادی کے اعدادو شمار پر گہری نظر ڈالنے سے اندازہ ہوا کہ اس تبدیلی کی وجہ عمر کے دو بڑے گروپ بے بی بومرز اور ملینئلز تھے ۔ گزشتہ دہائی میں مزید بے بی بومرز کی عمر یں 65 سال یا اس سے زیادہ ہو گئیں اور اور 1981 سے 1986 تک پیدا ہونے والے بچے جنہیں ملینئلز کہا جاتا ہے بالغ ہو کر بیس سے تیس پینتیس سال کی عمر کو پہنچ گئے ۔ اور یہ وہ مخصوص جنریشن ہے جو تعلیم ، روزگار اور پروفیشن پر زیادہ مرکوز ہے۔

میامی کے ایک کالج سے2011 میں گریجوایٹ ہونے والی خواتین، فوٹو اے پی
میامی کے ایک کالج سے2011 میں گریجوایٹ ہونے والی خواتین، فوٹو اے پی

ماہرین گزشتہ دس برسوں میں بچوں کی پیدائش میں کمی کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ کمی اس لیے ہوئی کیونکہ 2007 سے 2009 کے درمیان ہونے والے ریسیشن یا معاشی کساد بازاری کے باعث بہت سے واقعات میں امریکہ میں نوجوانوں یا ملینئیرز جنریشن نے اپنی توجہ تعلیم اور ملازمتوں پر مرکوز کی اور خاندان کی افزائش کو کچھ برسوں کے لیے موخر کر دیا اور اس کساد بازاری کے بعد پیدائش کی شرح کبھی بحال نہیں ہوئی ۔

یونیورسٹی آف میری لینڈ کے ایک سوشیالوجسٹ فلپ کوہن کہتے ہیں کہ، ایسا اس لیے ہوا کہ کساد بازاری کے دوران خواتین کےلیے ملازمت اور خاندان دونوں کو ساتھ لے کر چلنا مشکل ہو گیا ، انہیں بچوں کی سستی دیکھ بھال دستیاب نہیں تھی ۔ مستقل ملازمتوں کے فقدان کی وجہ سے ان کے لیے اپنی صحت کی دیکھ بھال اور رہائش کا بندو بست بھی مشکل ہو گیا تھا اور یوں ان مشکل معاشی اور سماجی مسائل کے دباؤ کے نتیجے میں انہیں اپنے خاندان کی افزائش کو موخر کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا جس کے نتیجے میں ان تمام برسوں میں شرح پیدائش میں کمی واقع ہوئی ۔

لیکن کیا بزرگ یا معمر آبادی میں اضافہ سماجی اور اقتصادی مسائل پیدا کر سکتا ہے؟ اس کے جواب میں ماہرین کا کہنا ہے کہ یقینی طور پر یہ اہم سماجی اور اقتصادی مسائل کا باعث بن سکتا ہے جن میں ایک اہم مسئلہ کام کرنے والوں اور کام نہ کر نے والے ریٹائرڈ افراد کے درمیان سوشل سیکیورٹی کے حوالے سے پیدا ہو سکتا ہے ۔

ایک بے بی بومر اور اس کا بیٹا، فوٹو اے پی
ایک بے بی بومر اور اس کا بیٹا، فوٹو اے پی

امریکی سوشل سیکیورٹی سسٹم کے تحت کام کرنے والے لوگوں کی تنخواہوں یا اجرتوں میں سے کچھ رقم سوشل سیکیورٹی کی مد میں کاٹ کر نیشنل سوشل سیکیورٹی اکاونٹ میں جمع کر دی جاتی ہے جو ان کی کٹوائی ہوئی رقم کے حساب سے اس وقت ملنا شروع ہو جاتی ہے جب وہ کسی معذوری کی وجہ سے کام کرنا چھوڑ دیں یا سرکاری طور پر مقررہ بڑھاپے اور ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ جائیں۔ جس کے بعد انہیں یہ وظیفہ تا حیات ملتا رہتا ہے ۔ اس وقت امریکہ میں 67 سال کی عمر میں ریٹائر ہونے والے لوگ سوشل سیکیورٹی اکاؤنٹ سے رقم حاصل کرنے کے اہل ہیں ۔

ماہرین کہتے ہیں کہ عمر رسیدہ افراد کی تعداد میں اضافے اور کام کرنے والے لوگوں کی تعداد میں کمی کا مطلب یہ ہے کہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ لوگ کام کیے بغیر سوشل سیکیورٹی اکاؤنٹ سے اپنے گزارے کی رقم حاصل کر رہے ہیں اور نسبتاً کم لوگ اس اکاؤنٹس میں رقم جمع کروا رہے ہیں ۔جس سے امکان یہ ہے کہ جب کام کرنے والے موجودہ لوگ سوشل سیکیورٹی حاصل کرنے کی عمر کو پہنچیں گے تو اس رقم میں مجموعی کمی ان کی سوشل سیکیورٹی پر اثر ڈال سکتی ہے ۔

اسی طرح بچوں کی پیدائش میں کمی کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے برسوں میں کام کرنے والے لوگوں کی تعداد کم ہو گی اور کام کیے بغیر سوشل سیکیورٹی حاصل کرنے والے لوگوں کی تعداد بڑھ جائےگی جس کے نتیجے میں یقینی طور پر کام کرنے والوں اور کام نہ کرنے والے لوگوں کےدرمیان ایک مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے ۔

یوٹاہ میں ایک ملینیئل جوڑا اپنا مکان خریدنے کے بعد خوش ہے، فوٹو اے پی
یوٹاہ میں ایک ملینیئل جوڑا اپنا مکان خریدنے کے بعد خوش ہے، فوٹو اے پی

امریکہ میں اس وقت 100 سال کی عمر کے لوگوں کی تعداد 53000 سے بڑھ کر 80000 ہو چکی ہے ۔ بوسٹن یونیورسٹی میں پروفیسر آف میڈیسن ، تھامس پیرلس کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے ان لوگوں نے گزشتہ 100 برسوں میں ویکسینز اور اینٹی بائیوٹک، سرجری اور بیماریوں کے بہتر علاج سے استفادہ کیا ہے ۔

اس تازہ مردم شماری سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ کام کرنے والی عمر کے لوگوں کی شرح مختلف نسلی کمیونیٹز میں مختلف ہے ۔ غیر ہسپانوی سفید فام افراد میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے اور ہسپانو ی لوگوں میں نوجوانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ امریکہ کی آبادی میں بچوں کی کل تعداد کا ایک چوتھائی ہسپانوی ہے۔

گزشتہ دس برسوں کی مردم شماری رپورٹ کے مطابق مختلف امریکی ریاستوں میں بوڑھے اور نوجوانوں کا تناسب مختلف ہے۔ یوٹاہ ، جہاں مورمن آبادی سب سے زیادہ ہے ، تیس اکتیس سال کی عمر کے سب سے زیادہ لوگ ہیں اور وہاں کی شرح پیدائش امریکہ بھر میں سب سےزیادہ ہے ۔ ڈسٹرکٹ آف کولمبیا ا س لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہے، کہ یہاں کام کرنے والی عمر کے سب سےزیادہ لوگ بستے ہیں جو زیادہ تر شہری علاقوں میں مقیم ہیں۔ شمالی ڈ کوٹا وہ واحد ریاست ہے، جہاں کام کرنے والی عمر کے افراد کی تعداد کم ہوئی ہے کیوں کہ وہاں سے نوجوان کارکن ان علاقوں میں نقل مکانی کر گئے جہاں انرجی سیکٹر ترقی کر رہا ہے۔

اگر ریاستوں کے اعتبار سے مردم شماری کے اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کی ریاست مین (Maine) میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد امریکہ بھر میں سب سے زیاد ہ ہے، یعنی کل آبادی کا 45 اعشاریہ ایک فیصد عمر رسیدہ ہےاور کام نہیں کرتا۔ پورٹوریکو میں بھی کام کرنےوالوں کی تعداد تقریبا اسی برابر یعنی 45 اعشاریہ 2 فیصد ہے ۔ماہرین اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ وہاں کام کرنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد شدید سمندری طوفانوں اور حکومت کی بد انتظامی کے باعث جزیرہ چھوڑ کر جا چکی ہے ۔

امریکہ کی چار ریاستوں، فلوریڈا، مین، ورمونٹ اور ویسٹ ورجینیا میں ریٹائرڈ اور بومر جنریشن کے معمر افراد کی تعداد کل آبادی کے پانچویں حصے سے زیادہ ہے۔

امریکہ کی آبادی 2020 میں 33 کروڑ سے زیادہ تھی، جس میں 65 سال کی عمر کے لوگوں کی تعداد 16 اعشاریہ 8 فیصد تھی۔ لیکن یہ تعداد جاپان، اٹلی اور یونان جیسے ملکوں کی بزرگ آبادی سے پھر بھی نمایاں طور پر کم تھی جہاں عمر رسیدہ افراد کی تعداد کل آبادی کے پانچویں اور چوتھے حصےسے زیادہ ہے۔

امریکی حکومت نےمعمر افراد کی تعداد میں اضافے اور سوشل سیکیورٹی سسٹم کو زیادہ دیر تک مناسب طریقے سے چلانے کے لیے ایک حل یہ نکالا ہے کہ ہر سال ریٹائرمنٹ کی مقررہ عمر میں کچھ اضافہ کر دیا جاتا ہے ۔ اس وقت ریٹائر منٹ کی عمر 67 سال مقرر کی گئی ہے جس کے بعد وہ سوشل سیکیورٹی حاصل کرنے کے حقدار ہوتے ہیں ۔

ماہرین کہتے ہیں کہ اس کا ایک دوسرا حل یہ ہے کہ دنیا بھر سے کام کرنےکے قابل افراد کو امریکہ میں لا کر آباد کیا جائے تاکہ وہ کام کریں اوراپنی آمدنی میں سے کچھ حصہ سوشل سیکیورٹی کے طور پر جمع کروائیں۔

جائزوں سے ظاہر ہو چکا ہے کہ امریکیوں کی نسبت تارکین وطن کمیونٹیز میں شرح پیدائش نسبتاً زیادہ ہوتی ہے تو یوں نوجوان تارکین وطن کی آمد سے ملک میں شرح پیدائش میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے ۔

یونیورسٹی آف میری لینڈ کے سوشیالوجسٹ فلپ کوہن کہتے ہیں کہ امریکہ میں آبادی میں کمی کے مسئلے کا آخر کار حل امیگریشن ہی ہو سکتا ہے۔

(اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)

XS
SM
MD
LG