ملائیشیا میں ربر کے دستانے بنانے والوں نے اُن ہزاروں تارکین وطن مزدوروں کو بھرتی فیس کی مد میں ادا کی گئی رقوم کی واپسی شروع کر دی ہے جس کی مالیت لاکھوں ڈالر بنتی ہے۔ ملائیشیا کو یہ اقدام اُس وقت کرنا پڑا جب امریکہ نے جبری مشقت کے دعوؤں کے بعد وہاں کے چند برآمد کنندگان سے دستانوں کی درآمد بند کر دی تھی۔
دنیا بھر میں استعمال ہونے والے ربڑ کے ہر تین میں سے دو دستانے ملائیشیا سپلائی کرتا ہے۔ کرونا وائرس کی وجہ سے اس طلب میں اضافہ ہوا ہے۔ دستانے بنانے کیلئے، زیادہ تر فیکٹریاں اُن تارکین وطن مزدوروں پر انحصار کرتی ہیں، جو یہ ملازمت حاصل کرنے کیلئے سینکڑوں ہزاروں ڈالر بھرتی کرنے والوں کو ادا کرتے ہیں، اور اس کے لیے بھاری قرضے لیتے ہیں۔
مزدوروں کے حقوق کی وکالت کرنے والے اسے قرضے کی غلامی قرار دیتے ہیں، جو کہ موجودہ دور میں غلامی کی ایک نمایاں مثال ہے۔ جس کی وجہ سے قرض کی ادائیگی کیلئے برسوں تک مزور، جابر آجروں کے شکنجے میں جکڑے رہتے ہیں۔
امریکہ کے کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن ادارے نے ستمبر 2019 میں ملائیشیا کی فیکٹریوں میں جبری مشقت کے شواہد ملنے کے بعد، ملائیشیا سے ربر کے دستانوں کی درآمدات روکنےکیلئے ووِد ہولڈنگ ریلیز آرڈرجاری کیا۔ پہلا آرڈر ڈبلیو آر پی ایشیا پیسیفک نامی کمپنی اور دوسرا جولائی میں ربر کے دستانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی 'ٹاپ گلو' کے خلاف جاری کیا گیا تھا۔
جب سے یہ آرڈر جاری ہوئے ہیں، تب سے دونوں کمپنیوں نے اپنے اپنے تارکین وطن مزدوروں کو ان کی ملازمت کے حصول کیلئے ادا کی گئی ریکروٹمنٹ فیس کی واپسی کیلئے کوششیں شروع کر دی ہیں۔
ٹاپ گلو کا کہنا ہے کہ اس نے جنوری 2019 سے اپنی نئی بھرتیوں کے پورے ریکروٹمنٹ اخراجات ادا کرنا شروع کر دئے ہیں۔ کمپنیوں نے 2019 سے پہلے بھرتی کیے جانے والے مزدوروں کو بھی رقم کی ادائیگی شروع کر دی ہے۔
حالیہ مہینوں میں، دستانے بنانے والی ملائیشیا کی کم از کم تین دیگر کمپنیوں نے بھی اپنے مزدوروں کو رقم ادا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تاہم ان پر امریکہ نے پابندی عائد نہیں کی تھی۔
ربر کے دستانے بنانے والے شعبے کی ترجمان تنظٰم، دی ملیشئین ربر گلو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جانب سے جبری مشقت کے الزامات کے بعد، اس شعبے سے منسلک کمپنیوں نے کم از کم 61 ملین ڈالر ادا کرنے کیلئے رکھے ہیں۔
تاہم تنظیم نے یہ نہیں بتایا کہ کتنے مزدوروں کو رقم واپس ملے گی۔ لیکن ٹاپ گلو کمپنی کے اگست میں جاری کیے گئے اپنے ایک بیان میں کہنا تھا کہ وہ اپنے نو ہزار کارکنوں کو رقم واپس کر رہی ہے۔