کراچی میں جمعہ کی صبح لانڈھی کے علاقے میں پولیس وین کے قریب ہونے والے دھماکے میں 2 سال پہلے چوری ہونے والی موٹر سائیکل استعمال کی گئی تھی۔ موٹر سائیکل کے ذریعے بم دھماکے کا یہ کوئی نیا واقعہ نہیں، بلکہ اب تک سینکڑوں دفعہ ایسا ہو چکا ہے۔ جس تواتر سے موٹر سائیکل دھماکوں میں استعمال کی خبریں عام ہو رہی ہیں، انہیں دیکھ کر عام آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کہیں موٹرسائیکل چلانے پر ہی پابندی نہ لگادی جائے۔
پولیس سربراہ، غلام قادر تھیبو، ایس ایس پی ملیر راوٴ انوار اور ڈی آئی جی ایسٹ منیر شیخ نے موٹر سائیکل دھماکے کی تصدیق کرتے ہوئے، بتایا ہے کہ بس رزاق آباد پولیس ٹریننگ سینٹر کی تھی، جبکہ دھماکے میں استعمال ہونے والی موٹرسائیکل دو سال پہلے چوری ہوئی تھی۔
بس جیسے ہی مرغی خانہ بس اسٹاپ کے قریب پہنچی پہلے سے وہاں موجود ایک موٹرسائیکل دھماکے سے پھٹ گئی۔
پولیس نے ابتدائی تفتیش کے بعد کہا ہے کہ موٹرسائیکل کو ریموٹ کنٹرول کے ذریعے عین اس وقت اڑایا گیا جب بس اس کے قریب سے گزر رہی تھی۔
بم ڈسپوزل اسکواڈ کے عملے نے میڈیا کو بتایا کہ دھماکے میں پانچ کلو سے زائد دھماکا خیزمواد استعمال کیا گیا تھا۔
جائے واقعہ سے صرف 10 کلومیٹر دور رزاق آباد پولیس ٹریننگ سینٹر قائم ہے۔
جیسے ہی دھماکے کی اطلاع آئی سینٹر کی سیکورٹی پر مامور اہلکاروں کو انتہائی الرٹ کردیا گیا۔ سینٹر کے ایک سے زائد داخلی دروازے ہیں جن پر آہنی گیٹ نصب ہیں۔ ان گیٹس کو بند کردیا گیا اور پولیس کمانڈوز بھی تعینات کردیئے گئے۔
دھماکا صبح پونے آٹھ بجے ہوا تھا، اور دھماکے سے متاثرہ بس دوگھنٹے سے زیادہ عرصے تک وہیں کھڑی رہی۔ گیارہ بجے کے کچھ دیر بعدبس کو ٹریننگ سینٹر منتقل کیا گیا جہاں کسی بھی میڈیا رکن کو جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ البتہ، گیٹ پر تعینات ایک سینئر پولیس کمانڈو سمیت کئی اہلکاروں نے وائس آف امریکہ کے نمائندے سے شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر طویل گفتگو کی جن سے نئے پہلو سامنے آتے ہیں۔
پولیس افسران کے مطابق، دھماکوں میں موٹر سائیکل کا استعمال کوئی نئی بات نہیں، کراچی اور دیگر شہروں میں اب تک سینکڑوں دھماکوں میں موٹر سائیکلیں استعمال ہوچکی ہیں ۔حد یہ ہے کہ خودکش دھماکوں کے بعد سب سے زیادہ موٹرسائیکل بم دھماکے ہوتے ہیں۔
ایک اور اہلکار کے مطابق، ’صرف کراچی کی بات کریں تو یہاں 25 لاکھ سے زائد موٹر سائیکلیں ہیں۔ تنگ گلیوں میں جہاں رکشا بھی داخل نہیں ہوسکتا وہاں موٹرسائیکل چلائی جاتی ہیں۔ شہد کی مکھی کے چھتے کی طرح ہر جگہ موٹرسائیکلیں ہی وٹرسائیکلیں نظرآتی ہیں۔ جس شہر میں اتنا بڑی تعداد میں یہ ہوں وہاں ان کے چھننے ، چوری ہونے اور ان کے غلط استعمال کو روکنا یا اس پر نظر رکھنا ویسے ہیں ناممکن ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ، ’ہر موٹر سائیکل خواہ نئی ہو یا پرانی اس کے انجن پر بڑا سا کپڑا لپٹا ہوا ہوتا ہے اس لئے پہلی نظر میں یہ اندازہ بھی کوئی نہیں لگاسکتا کہ اس میں دھماکہ خیز مواد ہے یا نہیں۔‘
ایک دیگر تفتیشی افسر کا کہنا ہے، ’سالوں پہلے چھینی یا چوری ہوجانے والی موٹرسائیکل کے دھماکے میں استعمال ہوجانے کے بعد معاملہ صرف یہاں آخر ختم ہوجاتا ہے کہ اس کی ایف آئی آر فلاں تھانے میں کٹی تھی اور بس۔۔یہاں تو جس علاقے سے یہ چھنتی ہے وہاں بیشتر اوقات نہ تو سرچ آپریشن ہوتا ہے اور نہ ہی کبھی جرائم پیشہ افراد یا واقعے میں ملوث افراد کو پکڑا جاتا ہے۔ لہذا، موٹر سائیکلز کو چھین کر یا چوری کرکے انہیں دھماکوں میں استعمال کرنے کے واقعات عام ہیں۔‘