حسیب دانش علیکوزئی
عوامی جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آئیووا کے زیادہ تر مکینوں کے ذہن پر امریکی معیشت کا معاملہ حاوی رہا ہے۔ اس کا پتا اُس وقت چلا جب پیر کو صدارتی نامزدگی کے لیے کاؤکسز میں لوگ شریک ہوئے۔ تاہم، کاؤکسز کے شائقین کا ایک گروپ ایسا بھی تھا جس کی ترجیح مختلف تھی۔
گیارہ ستمبر 2001ء کے دہشت گرد حملوں کے بعد، جب امریکہ نے افغانستان میں فوجیں بھیجیں، آئیووا سے تعلق رکھنے والی ’نیشنل گارڈ فوج‘ کے 5000 اہل کاروں نے افغانستان میں خدمات انجام دی ہیں۔ اور یوں، کئی ایک کا زاوئے نظر تبدیل ہو چکا ہے۔
سارجنٹ ڈیون برجے نے 2010ء سے 2011ء تک آئیووا نیشنل گارڈ کی ’بی کمپنی۔133‘ کے ساتھ افغانستان میں خدمات انجام دیں۔
برجے کی تعیناتی ملک کے مشرقی علاقے، طورخم میں تھی، جو علاقہ پاکستانی سرحد کے ساتھ واقع ہے۔ اُنھوں نے مشرقی صوبہٴ لغمان میں بھی خدمات انجام دی ہیں۔
سارجنٹ برجے نے، جو آئیووا کےشہر میں مقیم ہیں، کہا ہے کہ وہ اُس صدارتی امیدوار کی حمایت کریں گے جو افغان عوام کی مدد کی خاطر افغانستان میں رہنے کی حمایت کریں گے۔
سارجنٹ برجے کے بقول، ’’مجھے خوشی ہوگی اگر ایسا امیدوار جیتتا ہے جو افغانوں کا قدردان ہو، کیونکہ بہت سارے افغانوں نے امریکہ کی مدد کی، اور میرے خیال میں، یہ ہمارے اوپر ایک ادھار ہے۔ مجھے خوشی ہوگی کہ ایسے امیدوار کو آگے آتے دیکھوں جو اُن لوگوں کے مشکور ہوں جنھوں نے افغان لڑائی میں ہمارا ساتھ دیا‘‘۔
گذشتہ سال اکتوبر میں، صدر براک اوباما نے اعلان کیا تھا کہ ’رِزولوٹ سپورٹ مشن‘ کے ایک حصے کے طور پر افغانستان میں سال 2016ء تک اِسی سطح کی امریکی فوجی تعیناتی جاری رہے گی۔ منصوبے کے تحت اس سال امریکی فوج کی تعداد کو کم کیا جانا تھا۔ تاہم، طالبان کی پیش قدمی کے پیش نظر، اوباما نے سال 2017ء تک فوج کی سطح کو 5500 تک گھٹانے کے منصوبے کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا۔
سارجنٹ کلیٹن ایمبرے نے افغانستان میں سارجنٹ برجے کے ہمراہ خدمات انجام دیں۔ اُنھوں نے اپنے آپ کو ریپبلیکن پارٹی کا حامی ظاہر کیا۔
سارجنٹ ایمبرے نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ، ’’میں ریپبلیکن ہوں اور ریپبلیکن پارٹی ہی کو ووٹ دوں گا۔ میں جان کسیچ اور بین کارسن کو پسند کرتا ہوں‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ صدارتی انتخابی مہم کے دوران وہ قومی سکیورٹی اور معیشت کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ داعش کے شدت پسندوں اور دہشت گردی کے خلاف لڑائی کے معاملے پر، اُن کا کہنا تھا کہ ریپبلیکن پارٹی کے کسی بھی پسندیدہ امیدوار نے اِس مخصوص مسئلے کا ضروری حل پیش نہیں کیا۔
سارجنٹ ایمبرے کے بقول، ’’اِن میں سے کسی کو بھی پتا نہیں کہ کیا کرنا ہوگا، اور کیا کرنا چاہیئے۔ ظاہر ہے، وہ اتنی سمجھ رکھتے ہیں کہ وہ جنرلوں اور دیگر لوگوں کو سنیں، اور امید ہے وہ اپنے گرد ایسے عقل مند اور چست لوگوں کو جگہ دیں گے جو اُنھیں سمجھائے کہ کیا کچھ کیا جانا چاہیئے‘‘۔