پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع قصور میں پولیس نے ایک شخص کو قرآن کے اوراق کی بے حرمتی کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔
کنگن پور نامی علاقے کی پولیس نے جمعہ کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ارشد نامی شخص کے بارے میں درخواست موصول ہوئی جس میں یہ الزام عائد کیا گیا کہ یہ شخص موتی مسجد میں قرآن کے اوراق کی بے حرمتی کا مرتکب ہوا۔
پولیس نے درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے ارشد کو گرفتار کیا اور مقدمہ درج کر کے اسے جیل منتقل کر دیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ بظاہر ملزم کا ذہنی توازن درست معلوم نہیں ہوتا۔
رواں ہفتے ہی ضلع قصور کے ایک اور علاقے پھول نگر میں پولیس نے ایک مسیحی نوجوان کو بھی توہین مذہب کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
اس نوجوان پر الزام تھا کہ اس نے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ "فیس بک" پر مذہبی طور پر توہین آمیز تصویر کو پسند کیا اور اسے اپنے موبائل فون میں محفوظ بھی کیا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ توہین مذہب کے ان دونوں مبینہ واقعات پر ماضی کی نسبت متعلقہ علاقوں میں امن و امان کی صورتحال خراب نہیں ہوئی اور نہ ہی ملزمان کو مشتعل افراد کی طرف سے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
پاکستان میں توہین مذہب ایک حساس معاملہ ہے اور ایسے واقعات بھی سامنے آچکے ہیں جن میں مذہب یا مقدس شخصیات کی توہین کے مبینہ ملزمان کو مشتعل ہجوم جان لیوا تشدد کا نشانہ بنا چکا ہے جب کہ بعض واقعات میں ایسے ملزمان کو قانون کی حراست کے دوران بھی موت کے گھاٹ اتارے جا چکا ہے۔
انسانی حقوق کی مقامی و بین الاقوامی تنظیمیں اور آزاد خیال حلقے ایک عرصے سے اس بنا پر توہین مذہب کے قانون میں ترمیم کا مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ بہت سے واقعات میں لوگ ذاتی عناد کی وجہ سے اس کا غلط استعمال کرتے ہیں۔
تاہم بظاہر مذہبی حلقوں کے اثر و رسوخ کے باعث اب تک اس ضمن میں کوئی بھی حکومت پیش رفت نہیں کر سکی ہے۔
لیکن حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ایسے اقدام کیے جا رہے ہیں کہ جن سے اس قانون کے غلط استعمال کو روکنے میں مدد لی جا سکے۔