کرونا وائرس سے نمٹنے کے لئے اسرائیل کی اندرون ملک کام کرنے والی سیکیورٹی سروس، شین بیٹ کو متحرک کر دیا گیا ہے جس پر اس بارے میں سخت تشویش پیدا ہو گئی ہے کہ حکومت اپنے اختیارات سے حد سے زیادہ تجاوز کر رہی ہے۔
اس نئے اقدام کے تحت سیکیورٹی سروس گزشتہ دو مہینوں سے ہر ایک کے موبائل فون پر یہ تعین کرنے کے لئے نظر رکھ رہی ہے کہ ان میں سے کتنے افراد کا کرونا وائرس کے مریضوں سے ممکنہ رابطہ رہا ہے۔
اس بات پر انسانی حقوق کے بعض گروپوں نے لوگوں کی داخلی زندگی میں دخل اندازی کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے، لیکن بیشتر اسرائیلی ان اقدامات کی حمایت کرتے ہیں، اور سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ یہ کاروائیاں مستقل حیثیت نہ اختیار کر لیں۔
اسرائیل کے مختلف مقامات پر پولیس نے گھر گھر جا کر دستک دی تاکہ اس بات کا پتہ چلایا جا سکے کہ جس کسی کا بھی کوویڈ 19 کے مریض سے رابطہ ہوا ہے وہ الگ تھلگ ہے کہ نہیں۔ پولیس نے ایسے لوگوں کے سیل فون پر نظر رکھتے ہوئے ان کا پتہ چلایا تھا۔
یاد رہے کہ یہ ٹیکنالوجی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے تیار کی گئی تھی اور جسے اسرائیل کے اندر گزشتہ چند برسوں سے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
اس ملک میں سیکیورٹی سے منسلک پیشہ ورانہ افراد کا کہنا ہے کہ انھیں لوگوں کی نجی زندگی کے بارے میں جائز تشویش کا اندازہ ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ کرونا وائرس ایک قومی ایمرجینسی کی حثیت اختیار کرچکا ہے۔
سینیٹ کے سابق ڈائریکٹر ایمی آیالون نے اس جانب توجہ دلائی ہے کہ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ اس وقت دنیا میں کیا ہو رہا ہے اور یہ کہ اسرائیل میں بھی کیا ہو سکتا ہے؟ لوگ موت کا شکار ہو رہے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں اس وائرس کے نرغے میں آ رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ میرے نزدیک قومی سلامتی کی صورت حال کی اس سے بہتر اور کیا تعریف کی جا سکتی ہے؟
وائس آف امریکہ کے لئے نامہ نگار لینڈا گریڈسٹائن نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ شہری حقوق کے گروپوں نے سپریم کورٹ میں ہنگامی اقدامات کو چیلنج کر دیا ہے جس نے احکامات جاری کئے ہیں کہ یہ کاروائی اس وقت تک روک دی جائے جب تک کہ پارلیمنٹ اس کی منظوری نہیں دے دیتی۔
سرکاری عہدیداروں کا دعوی ہے کہ سینیٹ کی جاسوسی سے کرونا وائرس کے انفیکشن میں مبتلا ساڑھے پانچ ہزار مریضوں کا پتہ چلانے میں مدد ملی جس کے بعد انھیں قرنطینہ میں ڈال دیا گیا۔
تاہم اسرائیل میں جمہوریت کے علمبردار گروپوں کا کہنا ہے کہ نگرانی کا کام عمومی طور پر غلط ہے اور خاص طور پر جب یہ خفیہ ایجنسی کی جانب سے انجام دیا جا رہا ہو۔ اسرائیل ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ سے منسلک تاہیلیہ شواٹس نے خیال ظاہر کیا کہ شفافیت ضروری ہے اور صرف مطلوبہ اعداد و شمار ہی جمع کئے جائیں جنھیں کرونا وائرس کی وبا کے بعد ضائع کر دیا جائے۔
دوسری جانب اسرائیلی عرب شہریوں کو اس بات پر سخت تشویش ہے کہ امکانی طور پر جو معلومات جمع کی جائیں گی انھیں ان کی برادری کے خلاف امتیاز برتنے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
عرب اقلیتی گروپ کے لیگل سیکٹر کے ڈائریکٹر حسن جابرین کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے مستقبل کے لئے غلط مثال قائم ہو گی، جس سے سیکیورٹی انٹیلی جینس، شہریوں کو ان کے سیاسی نظریات اور ان کی قومی شناخت کی بنیاد پر ہراساں کر سکے گی۔
بہت سے مبصرین، اسرائیل کے موجودہ قومی منظرنامے میں، اس اقدام کو ایک سیاسی چال سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔