|
لاہور— ’’میں اس وقت دمشق کے نواح میں موجود سیدہ زینب کے مزار پر موجود ہوں۔ باغی فورسز کے اہلکار مرد اور خواتین کو گروپس کی صورت میں بی بی زینب کے مزار پر آنے نہیں دے رہے۔ صورتِ حال خراب ہے اور لوگ ڈرے ہوئے ہیں۔‘‘
یہ کہنا ہے لاہور سے مقدس مقامات کی زیارت کے لیے شام جانے والی فروا زہرا کا جو کئی دیگر زائرین کے ساتھ دمشق میں موجود ہیں۔
شام میں دارالحکومت کے قریب سیدہ زینب کا مزار ہے جو پیغمر اسلام کی نواسی اور امام حسین کی بہن ہیں اور یہ علاقہ انہی کے نام سے موسوم ہے۔
کئی ممالک کی طرح پاکستان سے بھی سیدہ زینب کے مزار کی زیارت کے لیے زائرین جاتے ہیں۔
پاکستان سے شام جانے والی خاتون فروا زہرا بتاتی ہیں کہ اِس وقت سیدہ زینب کے مزار کا ایک حصہ بند ہے۔ یہ حصہ خواتین کے داخلے کا ہے جس کو باغی فورسز نے سیل کر دیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے فون پر بات کرتے ہوئے فروا زہرا نے بتایا کہ پیر کی صبح صورت حال پریشان کن تھی۔ باغی فورسز کے اہلکاروں نے مزار کے تبرکات والے دفتر اور دیگر دفاتر میں توڑ پھوڑ کی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ اتوار کے روز سے بی بی زینب کے مزار پر اذان بند تھی لیکن اب صورتِ میں بہتری آئی ہے البتہ بے یقینی برقرار ہے۔
شام میں بشار الاسد کی حکومت ختم ہونے کے بعد باغی فورسز نے دارالحکومت کا کنٹرول تو سنبھال لیا ہے البتہ دمشق سمیت دیگر شہروں میں امن و امان کی صورتِ حال پوری طرح کنٹرول میں نہیں ہے۔
ان حالات میں وہاں مقیم پاکستانیوں کو مشکلات کا سامنا ہے اور وہ محفوظ راستوں سے شام سے واپس پاکستان آنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کے ضلع اٹک سے تعلق رکھنے والے سید نزاکت حسین نقوی بھی اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ زیارت کے لیے شام گئے ہوئے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ دمشق کے جس ہوٹل میں ہیں وہاں عملہ زائرین کے ساتھ محبت سے پیش آ رہا ہے لیکن انہیں ہوٹل سے باہر نہ نکلنے کی تاکید کی گئی ہے۔
سید نزاکت حسین نقوی نے بتایا کہ وہ جہاز سے لاہور سے دمشق پہنچے تھے اور اتوار کی رات اُن کی واپسی کی فلائٹ تھی جسے پیر کی صبح لاہور پہنچنا تھا۔ لیکن اب ایئر پورٹ بند ہونے اور حالات بگڑنے پر شام سے کوئی بھی فلائٹ روانہ نہیں ہورہی ہے۔
اُنہوں نے بتایا کہ دمشق کے ایئر پورٹ کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے جس کے بعد تمام پروازیں منسوخ ہو چکی ہے۔
سید نزاکت نقوی کا کہنا تھا کہ وہ، اُن کے اہلِ خانہ اور گروپ کے دیگر افراد جلد از جلد واپس پاکستان آنا چاہتے ہیں۔ ان کے بقول شام میں پاکستان سے ان کے سامنے آئے ہوئے مختلف گروپس کی صورت میں زائرین کی تعداد 280 ہے۔
سید نزاکت نقوی کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے خود پاکستانی سفارتخانے سے واپسی سے کے لیے رابطہ کیا ہے۔ اُنہوں نے گلہ کیا کہ پاکستانی سفارتخانے نے کسی بھی زائر سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔
وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں شام میں تعینات پاکستانی سفارت خانے کے سینئر عہدے دار مطیع الرحمان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی جانب سے تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے گزشتہ روز اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ دمشق میں سفارت خانے کو زائرین کی وطن واپسی کے لیے اقدامات کی ہدایت دے دی گئی ہیں۔
پیر کو پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کی صدارت میں شام سے پاکستانیوں کے انخلاء سے متعلق اجلاس بھی منعقد ہوا ہے۔
وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ شام سے وطن واپسی کے خواہاں پاکستانیوں کے ہمسایہ ممالک کے ذریعے جلد از جلد انخلاء کی حکمتِ عملی بنائی جائے۔
شہباز شریف نے لبنان کے وزیرِ اعظم سے بھی پاکستانیوں کے انخلا میں مدد کے لیے رابطہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت صرف ہمسایہ ممالک کی مدد ہی سے انخلا ممکن ہوسکتا ہے۔
ادھر شام میں موجود پاکستانی زائرین ہوں یا وہاں مقیم افراد کو انخلا کے لیے سفارت خانے کی جانب سے اقدامات کا انتظار ہے۔
’’معلوم نہیں فائرنگ خوشی کے لیے کرتے ہیں یا لڑائی کے لیے‘‘
شام کے علاقے سیدہ زینب کے علاقے میں قائم ایک مدرسے الزینبیہ کے پاکستانی استاد مولانا قاسم علی حیدری بتاتے ہیں کہ وہ ایک عرصے سے درس و تدریس سے منسلک ہیں۔
شام میں حکومت گرنے کے بعد وہ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ گھر میں محصور ہیں اتوار کے بعد ان کے گھر کا کوئی فرد گھر سے نہیں نکلا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ سیدہ زینب کا مزار شام کے دارالحکومت دمشق سے 12 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جب سے باغی فوج سیدہ زینب کے علاقے اور دمشق میں داخل ہوئی ہیں مسلسل فائرنگ کی آواز آ رہی ہے۔
ان کے بقول یہ نہیں معلوم کہ فائرنگ خوشی میں ہو رہی ہے یا لڑائی جاری ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ جب سے دمشق میں امن و امان کی صورتِ حال خراب ہوئی ہے یہاں گھروں میں چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں بڑھ گئی ہیں اور یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ کارروائیاں کرنے والے کون ہیں۔
مولانا قاسم حیدری کا کہنا تھا کہ اُن سے پاکستانی سفارت خانے کے لوگوں نے رابطہ کیا تھا اور اہلِ خانہ کے افراد کی فہرستیں مانگی تھیں جس کے بعد تمام افراد کے پاسپورٹس کی کاپیاں سفارت خانے کو مہیا کر دیں تھیں۔ لیکن بعد میں کسی نے کوئی رابطہ نہیں کیا۔
مولانا قاسم علی حیدری کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے ازخود سفارت خانے سے رابطہ کیا تو اُنہوں نے جواب دیا کہ اُن کا کام تھا شام میں مقیم پاکستانیوں کی فہرستیں بنا کر بھجوانا تھا جو کردیا ہے۔ اب وہاں سے جو پیغام آئے گا اس کے مطابق دیکھیں گے۔
اُنہون ںے مزید بتایا کہ صرف دمشق اور سیدہ زینب کے علاقے میں 32 پاکستانی خاندان ایک عرصہ سے مقیم ہیں جبکہ زائرین کی تعداد 300 کے قریب بنائی جا رہی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ دیگر علاقوں صبورا، قرة الااسد سمیت دیگر شہروں میں بھی پاکستانی خاندان مقیم ہیں۔
’’مشکلات بڑھ رہی ہیں‘‘
حال ہی میں شام سے واپس پاکستان آنے والے ملتان کے پروفیسر حسین مصطفیٰ بناتے ہیں کہ شام میں بغاوت کے بعد صورتِ حال بہت زیادہ خراب ہو چکی ہے اور وہ اپنے ساتھیوں کی حفاظت سے واپسی کے لیے خاصے پریشان ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بغاوت کے بعد موبائل فون نیٹ ورک کی صورتِ حال خاصی خراب ہے اور انٹرنیٹ سست روی کا شکار ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دمشق شہر اور بی بی زینب کے مزار کے قریب تمام سیکیورٹی چوکیوں پر باغی فورسز نے کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ دمشق میں موجود ساتھیوں سے اتوار اور پیر کی درمیانی رات رابطہ ہوا ہے جو خاصے پریشان ہیں اور وہ یہ صورتِ حال بتاتے ہیں کہ لوگوں کو گھروں اور ہوٹلوں تک محصور کر دیا گیا ہے۔ شہر میں لوگوں کو کھانے پینے کی اشیا کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔
مسافروں کے ساتھ ساتھ شام میں مقیم پاکستانیوں کو بھی دشواریوں کا سامنا ہے۔ طویل عرصے سے دمشق میں مقیم مدرسہ الزینبیہ کے اُستاد مولانا قاسم علی حیدری بھی صورتِ حال کا ایسا ہی نقشہ کھینچتے ہیں۔
اُنہوں نے بتایا کہ 24 میں سے صرف دو گھنٹے بجلی آتی ہے جس میں ایک گھٹنہ رات اور ایک گھنٹہ دن کا وقت ہے۔ گھروں میں جو راشن بچا ہوا ہے اُسی پر گزارہ ہے۔ صورتحال خراب ہونے کے باعث نہ گھر سے باہر نکل سکے ہیں اور نہ ہی راشن زخیرہ کر سکے ہیں۔
ان کے بقول سب ہی مقیم افراد ہوں یا زائرن سبھی پریشان ہیں اور تمام لوگ شام کی صورتِ حال کے سبب وہاں سے نکلنا چاہتے ہیں۔
دمشق میں بی بی زینب کے مزار پر موجود فروا زہرا نے بتایا کہ پیر کو صورتِ حال میں اتنی بہتری آئی تھی کہ اُنہوں نے مزار کے احاطے میں ظہرین کی نماز ادا کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ لیکن تاحال مزار کی ضریع کے حصے میں خواتین کا داخلہ منع ہے اور صرف مردوں والے راستے سے گروپ کے بجائے ایک ایک دو دو کرکے زیارت کی اجازت دی گئی ہے۔
فروا زہرا کہتی ہیں کہ انہوں نےبھی مزار پر جا کر سلام کیا ہے اور کسے معلوم کہ یہ ان کا الوداعی سلام ہو۔