|
ویب ڈیسک — شام میں باغیوں نے محض 11 روز کی پیش قدمی کے بعد اتوار کو دمشق کا کنٹرول سنبھال کر مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال بدل کر رکھ دی ہے۔
ماہرین کے مطابق خطے کی بڑی قوتوں کو اب نئے سرے سے صف بندی کرنی ہوگی۔
بشار الاسد نے اپنے اتحادیوں کی مدد سے لگ بھگ 14 برس تک باغیوں کو آگے بڑھنے سے روک رکھا تھا۔ لیکن چند روز کے اندر ہی وہ اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
اس پیش رفت کو جہاں ایران کے لیے دھچکا قرار دیا جا رہا تو وہیں اسرائیل سمیت خطے کے دیگر ممالک بھی اس صورتِ حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
ایران کے لیے کیا امکانات ہیں؟
برطانیہ کے ’کنگز کالج لندن‘ میں سیکیورٹی اُمور سے وابستہ ماہر آندریاس کریگ کہتے ہیں کہ ایران اور 'مزاحمت کی محور' قوتوں کو اب اپنی 'ہوم ٹرف' پر توجہ دینا ہو گی کیوں کہ اب یہ اسٹریٹجک ڈیپتھ کھو سکتے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ جس رفتار سے 'ہیئت تحریر الشام' نے پیش قدمی کی اس سے پوری دنیا دنگ ہے۔ اسد حکومت کے مخالف یا حامی ممالک میں سے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ دمشق اتنی تیزی سے بشار الاسد کے ہاتھوں سے نکل جائے گا۔
انسٹھ سالہ بشار الاسد کی اقتدار پر گرفت حالیہ برسوں میں اتنی مضبوط ہو گئی تھی کہ کچھ عرب ممالک شامی حکومت کے ساتھ روابط معمول پر لانے پر غور کر رہے تھے۔ یہ تعلقات کئی برس سے جاری خانہ جنگی کے باعث خراب ہو گئے تھے۔
گزشتہ برس اکتوبر میں حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد شروع ہونے والے تنازع نے ماہرین کے مطابق ایران اور اس کی حامی تنظیموں کی کمزوریاں ظاہر کر دی تھیں۔ حزب اللہ کی فوجی قوت کم ہوئی ہے جب اس کے سربراہ حسن نصر اللہ بھی مارے گئے ہیں۔
بشار الاسد حکومت کے خاتمے سے قبل ہی اسرائیل شام کے راستے حزب اللہ کے لیے جانے والی ایرانی سپلائی لائن کو نشانہ بنا رہا تھا۔
ایران کی حزب اللہ کو حاصل حمایت کو اب ایک نئے خطرے کا سامنا ہو گا کیوں کہ دمشق پر قبضہ کرنے والی قوتیں شامی حکومت کی حمایت کا ذمے دار حزب اللہ کو ٹھہرائیں گی۔
ماہرین کے مطابق عراق اور یمن میں ایران کے باقی ماندہ حامی جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو چیلنج کرتے رہے ہیں اس صورتِ حال پر نالاں ہوں گے۔ لیکن وہ صورتِ حال بدلنے کی طاقت نہیں رکھتے۔
روسی مفادات
دوسری جانب بشار الاسد کا حامی روس یوکرین میں اُلجھا ہوا ہے اور اسے بھی اب بڑے فیصلے کرنے ہیں۔
واضح رہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں روس کا سب سے بڑا بحری اڈہ شام کے ساحلی شہر طرطوس میں ہے۔
آندریاس کریگ کہتے ہیں کہ اُنہیں نہیں لگتا کہ شام میں نیا سیاسی سیٹ اپ روس کی موجودگی کو برداشت کرے گا۔ لہٰذا ایسا لگتا ہے کہ روس کو یہاں بہت کچھ کھونا پڑے گا۔
لیکن کریگ کہتے ہیں کہ اس ساری صورتِ حال میں ترکیہ کی ایک طرح سے جیت ہوئی ہے جو باغیوں کی حمایت کرتا رہا ہے۔ لیکن یہ بھی ہے کہ ترکیہ باغیوں کی حمایت تو کرتا ہے لیکن انہیں کنٹرول نہیں کر سکتا۔
’اب اقتدار کون سنبھالے گا اور کتنا وقت لگے گا؟‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ تبدیلیوں سے گزرتے مشرقِ وسطیٰ کو آئندہ ماہ ایک اور بڑی تبدیلی کا سامنا ہے اور وہ ہے ڈونلڈ ٹرمپ کا دوبارہ امریکی صدرارت کے منصب پر فائز ہونا۔
سنچری انٹرنیشنل تھنک ٹینک سے وابستہ ماہر ایرن لِنڈ ڈونلڈ ٹرمپ کے طاقت میں آنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں یہ "مکمل بے یقینی کے دور میں یہ تبدیلی معاملات کو مزید غیر متوقع بنا رہی ہے۔"
'اے ایف پی' سے گفتگو کرتے ہوئے ایرن کا کہنا تھا کہ "بات صرف اسد حکومت کے گرنے کی نہیں بلکہ معاملہ یہ بھی ہے کہ اب اقتدار کون سنبھالے گا اور اس میں کتنا وقت لگے گا۔ لہذٰا اب دیکھیں گے کہ شام کے حوالے سے علاقائی قوتوں کے درمیان بھی ایک مقابلے کی فضا ہو گی۔"
اُن کے بقول خطے کے مختلف ممالک 2011 کے بعد سے شام میں مختلف باغی دھڑوں کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ لیکن متحدہ عرب امارات اور بعض دیگر عرب ریاستوں نے کئی برسوں تک تعلقات میں سرد مہری کے بعد اسد حکومت کے ساتھ تعلقات استوار کیے تھے۔
ایرن کہتے ہیں کہ کئی ریاستیں خطے میں 'اخوان المسلمون' جیسے سنی گروپس سے خوف زدہ ہیں۔ کیوں کہ اُنہیں دمشق میں نئے حکمرانوں کی طرف سے بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اُن کے بقول جس دھڑے نے شامی حکومت کا تختہ اُلٹا ہے یہ اخوان المسلمون سے زیادہ عسکریت پسند اور سخت گیر ہے۔
اسرائیل اور دیگر ممالک کی توقعات
ماہرین کے بقول اسرائیل اور اس کے اتحادی یہ اُمید کر رہے ہیں کہ آئندہ ماہ 20 جنوری کو ٹرمپ کے آنے کے بعد صورتِ حال مزید تبدیل ہو گی۔
بعض ماہرین کا کہنا کہ اسرائیل اور سعودی عرب جیسے ممالک ٹرمپ کی مشہورِ زمانہ 'ڈیل میکنگ' صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی کریں گے۔
ٹرمپ ماضی میں کہتے رہے ہیں کہ امریکہ کو شام کی جنگ میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔ تاہم ماہرین کہتے ہیں کہ ٹرمپ کے سامنے اب ایک نیا مشرقِ وسطیٰ ہے۔
کریگ کہتے ہیں کہ شام میں ہونے والے واقعات تیونس، مصر اور لیبیا جیسے ممالک کے لیے بھی ایک وارننگ ہے۔ کیوں کہ عرب اسپرنگ کے دوران ان ممالک میں بھی بغاوت نے سر اُٹھایا تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ دنیا میں اب 'آمرانہ طرزِ حکومت' کا کھیل ختم ہو رہا ہے۔
اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔