|
چین نے یوکرین میں روس کی جنگ سے مبینہ طورپر منسلک ہونے پر چینی کمپنیوں پر تازہ ترین امریکی پابندیوں کی مخالفت کا اظہار کرتے ہوئے اتوار کے روز کہا کہ وہ اپنے ملک کے کاروبار کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کرے گا۔
امریکہ نے جمعے کو روس اور یورپ، ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں سینکڑوں کمپنیوں پر یہ الزام عائد کرتے ہوئے سخت پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیاکہ وہ ایسی مصنوعات اور خدمات فراہم کر رہی ہیں جو روس کو جنگی کوششوں میں مدد کرتی ہیں اور اسے پابندیوں سے بچنے کی اپنی صلاحیت کو بہتر بنانےمیں معاونت کرتی ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ وہ چین سے روس کو "دوہرے استعمال کے سامان کی برآمدات کے حجم " پر پریشان ہے۔
چین کی تجارت کی منسٹری نےامریکہ کی جانب سے چین کی متعدد کمپنیوں کو برآمدی کنٹرول کی فہرست میں شامل کرنے کی سختی سے مخالفت کی ہے۔ یہ اقدام ایسی چینی کمپنیوں پر امریکی کمپنیوں کے ساتھ ایک تقریباً ناقابل حصول خصوصی لائسنس کے بغیر تجارت کرنے پر پابندی عائد کرتا ہے ۔
وزارت نے امریکی کارروائی کو " روائتی یکطرفہ پابندیاں" قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان سے عالمی تجارتی اصول و ضوابط میں خلل پڑنے کے ساتھ ساتھ عالمی صنعتیں اور سپلائی چین کا استحکام بھی متاثر ہو گا۔
بیان میں کہا گیا کہ چین امریکہ پر زور دیتا ہے کہ وہ اپنے غلط طرز عمل کو فوری طور پر روکے اور وہ چینی کمپنیوں کے جائز حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے مصمم طور پر ضروری اقدامات کرے گا۔
امریکہ کی یہ کارروائی ان ہزاروں امریکی پابندیوں کے سلسلے میں تازہ ترین ہے جو فروری 2022 میں یوکرین پر روس کے حملے کے بعد دوسرے ملکوں میں موجود روسی کمپنیوں اور ان کے سپلائرز پر عائد کی گئی ہیں۔ پابندیوں کے موثر ہونے پرسوال اٹھایا گیا ہے ،خاص طور پر اس لئے کہ روس بین الاقوامی منڈیوں میں تیل اور گیس بیچ کر اپنی معیشت کو مسلسل سہارا دیے ہوئے ہے ۔
امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق، چین میں مقیم کچھ کمپنیوں نے روس کی کمپنیوں کو مشینوں کے آلات اور پرزے فراہم کیے ہیں۔
چین نے یوکرین کے تنازع میں خود کو غیر جانبدار رکھنے کی کوشش کی ہے، لیکن وہ روس کی طرح مغرب کے خلاف سخت مخاصمت رکھتا ہے ۔
فروری 2022 میں جب روس کی جانب سے یوکرین میں فوج بھیجنے کے رد عمل میں مغربی ملکوں نے روسی تیل پر سخت پابندیاں عائد کر دی تھیں تو چین نے روس میں اپنا اثر و رسوخ بڑھاتے ہوئے روسی تیل کی خریداری میں نمایاں اضافہ کردیا تھا۔
روسی صدر ولادی میر پوٹن نے بھی کریملن میں پانچویں مدت کی اپنی حلف برداری کے فوراً بعد بیجنگ میں چینی رہنما شی جن پنگ سے ملاقات کرکے چین کی اہمیت کو اجاگر کیا تھا۔
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔
فورم