رسائی کے لنکس

بی جے پی کی سیاست بھارت کی جنوبی ریاستوں میں کامیاب کیوں نہیں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

  • بھارت کی جنوبی ریاستیں سماجی، لسانی، تعلیمی، اقتصادی، مذہبی اور ثقافتی اعتبار سے شمالی ریاستوں سے بالکل مختلف ہیں، مبصرین
  • جنوبی ریاستوں میں بی جے پی کی سیاست کی ناکامی کے کئی تاریخی اور سماجی اسباب ہیں، ایم اے سراج
  • بھارت کے جنوب میں پانچ ریاستیں کرناٹک، کیرالہ، آندھرا پردیش، تیلنگانہ اور تمل ناڈو ہیں جب کہ وفاق کے زیرِ انتظام پڈوچیری کا علاقہ ہے۔
  • مجموعی طور پر جنوبی ریاستوں میں ایوانِ زیریں لوک سبھا کی 131 نشستیں ہیں۔
  • سال 2019 کے انتخابات میں بی جے پی نے جنوبی ریاستوں سے صرف 30 نشستیں حاصل کی تھیں۔
  • بعض طبقات نے شمالی بھارت کو ہی اصل بھارت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے، تجزیہ کار ڈاکٹر ابھے کمار
  • جنوبی ریاستوں میں کسی بھی بڑی جماعت نے بی جے پی سے اتحاد نہیں کیا ہے۔

نئی دہلی _ بھارت میں عام انتخابات کا عمل جاری ہے اور ایسے میں سیاسی و صحافتی حلقوں میں یہ بحث بھی ہو رہی ہے کہ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی سیاست ملک کی شمالی ریاستوں کی طرح جنوبی ریاستوں میں کیوں کامیاب نہیں ہے؟ اور کیا وہ اس بار اپنے ’چار سو پار‘ کے نعرے کے ساتھ جنوب میں اپنی سیاسی جڑیں مضبوط کر پائے گی؟

مبصرین کا کہنا ہے کہ جنوبی ہند سماجی، لسانی، تعلیمی، اقتصادی، مذہبی اور ثقافتی اعتبار سے شمالی ہند سے بالکل مختلف ہے جس کی وجہ سے وہاں بی جے پی اپنے قدم نہیں جما سکی ہے۔

بھارت کے جنوب میں پانچ ریاستوں کرناٹک، کیرالہ، آندھرا پردیش، تیلنگانہ اور تمل ناڈو اور وفاق کے زیرِ انتظام علاقے پڈوچیری میں مجموعی طور پر ایوانِ زیریں لوک سبھا کی 131 نشستیں ہیں۔

سال 2019 کے انتخابات میں جب پلوامہ حملے کی وجہ سے بھارت میں قوم پرستی کے جذبات عروج پر تھے، اس وقت بھی بی جے پی جنوبی بھارت سے صرف 30 نشستوں پر کامیاب ہو سکی تھی۔

بنگلور سے تعلق رکھنے والے سینئر تجزیہ کار، صحافی اور انگریزی روزنامہ ’نیوز ٹریل‘ کے ایڈیٹر ایم اے سراج کہتے ہیں ملک کی جنوبی ریاستوں میں بی جے پی کی سیاست کی ناکامی کے کئی تاریخی اور سماجی اسباب ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ریاست کرناٹک میں مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ ذات برادری کی بنیاد پر ووٹ دینے کا فیصلہ ہوتا ہے جب کہ تمل ناڈو اور کیرالہ میں نظریاتی پارٹیوں کی بالاد ستی ہے۔

ان کے مطابق کیرالہ میں سیاسی معاملات میں لسانی بالادستی ہوتی ہے جب کہ تمل ناڈو میں پس ماندہ برادریوں کے اثرات بڑھے ہیں جو برہمن ازم کے خلاف سرگرم ہیں اور ہندوؤں کی مقدس کتابوں سے متعلق ناقدانہ رائے رکھتے ہیں۔

مذہبی بنیادوں پر سیاست؟

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کی جنوبی ریاستوں میں بی جے پی کی اسلاموفوبیا والی سیاست کامیاب نہیں۔ کرناٹک میں حجاب پر پابندی کی مہم کو مقبولیت حاصل نہیں ہوئی۔ ہندوؤں کی بالادستی کی سیاست کو عوام نے مسترد کر دیا جس کے نتیجے میں اس کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور کانگریس کی حکومت بنی۔

بی جے پی نے ریاست میں سابق وزیرِ اعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا کی علاقائی جماعت جنتا دل (سیکولر) یا جے ڈی ایس سے انتخابی اتحاد کیا ہے۔ لیکن دیوے گوڑا کے پوتے اور ہاسن سے امیدوار پرجول ریونا کے مبینہ جنسی اسکینڈل کی وجہ سے بی جے پی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

ایم اے سراج کا کہنا ہے کہ کرناٹک میں دو مرحلوں میں پولنگ ہوئی ہے۔ پہلے مرحلے میں مبینہ اسکینڈل زیرِ بحث نہیں آیا تھا۔ البتہ انتخابات کے دوسرے مرحلے سے قبل اس سے متعلق ویڈیوز بہت زیادہ وائرل ہوئیں جس کا بی جے پی اور جے ڈی ایس اتحاد پر اثر پڑے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ریاست میں کانگریس کو 28 میں سے لگ بھگ دس سے پندرہ نشستیں مل سکتی ہیں اور بی جے پی کی نشستوں میں بڑی کمی واقع ہو سکتی ہے۔

ایم اے سراج مزید کہتے ہیں کہ کیرالہ میں کمیونسٹ تحریک کافی مضبوط رہی ہے جب کہ آندھرا پردیش میں مسلمان مقامی سیاست اور مقامی عوام میں گھلے ملے ہیں۔ وہاں بھی مندروں کی تعمیر یا مسلمانوں کے خلاف بیان بازیوں کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔

واضح رہے کہ جنوبی ریاستوں میں ہندی کے بجائے مقامی زبانیں دراوڑ گروپوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ بالخصوص تمل ناڈو میں ہندی زبان کے خلاف تحریک چلتی رہی ہے۔

وزیرِ داخلہ امت شاہ کے ہندی کو فروغ دینے سے متعلق ایک حالیہ بیان پر تمل ناڈو میں کافی احتجاج بھی ہوا تھا۔

سینئر تجزیہ کار اور نریندر مودی پر کتاب کے مصنف نیلانجن مکھوپادھیائے نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ وزیرِ اعظم مودی نے جنوری میں ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح سے قبل ملک کے مختلف علاقوں کے 11 دنوں کے دورے کے موقع پر تمل ناڈو میں تین روز قیام کیا تھا لیکن انھوں نے وہاں کی ثقافتی حساسیت کے پیشِ نظر جارحانہ ہندوتوا کو آگے بڑھانے کی کوشش نہیں کی۔

وزیرِ اعظم مودی کی تمل ناڈو پر بہت پہلے سے نظر ہے۔ انہوں نے تقریباً ایک سال میں ریاست کا 10 بار دورہ کیا جہاں حکمراں جماعت ’ڈی ایم کے‘ اور اپوزیشن ’اے آئی اے ڈی ایم کے‘ طاقت ور سیاسی جماعتیں ہیں۔

تمل ناڈو میں ڈی ایم کے اور کانگریس کے درمیان انتخابی اتحاد ہے جو بی جے پی کو سخت چیلنج دے رہا ہے جب کہ بی جے پی ریاست میں تیسری طاقت کے طور پر ابھرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

نیلانجن مکھوپادھیائے کے مطابق بی جے پی نے ریاست کی علاقائی پارٹی ’اے آئی اے ڈی ایم کے‘ سے اتحاد کیا تھا جو کچھ ماہ قبل ختم ہو گیا۔ اس کے بعد بی جے پی کے لیے چھوٹے سیاست دانوں سے مفاہمت کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا۔

'جنوبی ریاستوں کو بی جے پی کی سیاست پسند نہیں'

تجزیہ کاروں کے مطابق بی جے پی کی سیاست شمالی بھارت پر مرکوز ہے اور وہ ’ہندی، ہندو، ہندوستان‘ کی سیاست کرتی ہے جو جنوبی ریاستوں کو پسند نہیں۔

تجزیہ کار ڈاکٹر ابھے کمار کا کہنا ہے کہ بھارت ایک کثیر مذہبی، کثیر لسانی اور کثیر ثقافتی ملک ہے۔ لیکن بعض طبقات نے شمالی بھارت کو ہی اصل بھارت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ایک مخصوص جماعت نے اپنی سیاست میں برہمنی علامتوں کا استعمال کیا۔ ہندوتوا کی قوم پرستی میں ہندی، ہندو اور ہندوستان کو اہمیت حاصل ہے۔ لیکن یہ نعرہ جنوبی بھارت کی عکاسی نہیں کرتا اور اس کی سچائی بالکل الگ ہے۔

ان کے مطابق جنوب میں الگ قسم کے سماجی مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ لیکن اگر ہم بی جے پی کے انتخابی منشور کو غور سے پڑھیں تو ایسا لگے گا کہ یہ پارٹی پورے ملک پر نہیں بلکہ صرف شمالی بھارت پر حکومت کرنے کے لیے بنی ہے۔ بی جے پی جنوبی حصے پر بھی اسی سیاست کو تھوپنے کی کوشش کرتی ہے جس کی وجہ سے وہاں سے شدید ردِعمل سامنے آتا ہے۔

ابھے کمار کا مزید کہنا تھا کہ بی جے پی اپنی سیاست کے مرکز میں بھگوان رام کو رکھتی ہے لیکن جنوب کے عوام میں رام کو مقبولیت حاصل نہیں۔ کیوں کہ وہاں کے گاڈ اور بھگوان دوسرے ہیں۔

ان کے مطابق بی جے پی بھارت کی تکثیریت کے خلاف ہے اسی لیے وہ ایک ملک ایک الیکشن، ایک زبان اور ایک کلچر کی بات کرتی ہے اور اسی سیاست کو جنوبی ریاستوں پر بھی نافذ کرنا چاہتی ہے۔

مرکزی وزیر خزانہ سیتا رمن کے شوہر اور ملک کے معروف ماہرِ اقتصادیات پربھاکر پرکالا نے گزشتہ دنوں مختلف میڈیا اداروں کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا تھا کہ لوک سبھا انتخابات کے دوران شمال اور جنوب کی تقسیم ہو گئی ہے۔

ان کے بقول بی جے پی کو شمالی ریاستوں میں تو ووٹ مل جائیں گے مگر جنوبی ریاستوں سے ملنے کی توقع نہیں۔

ایم اے سراج بھی مبصرین کی اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں کہ چوں کہ جنوبی ریاستوں پر ملک کی تقسیم کا کوئی خاص اثر نہیں پڑا۔ لہٰذا وہاں پاکستان مخالف پروپیگنڈے کا بھی کوئی اثر نظر نہیں آتا۔

ان کے مطابق جنوب میں تعلیمی فروغ نے بھی مذہبی سیاست کو پنپنے نہیں دیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہاں مسلمانوں میں بھی تعلیمی بیداری آئی ہے۔ کرناٹک میں 53 یونیورسٹیز ہیں جن میں سے پانچ مسلمانوں کی ہیں۔

صرف بنگلور میں مسلمانوں کی تین جامعات، 50 ڈگری اور انجینئرنگ کالجز، 550 مسلم ہائی اسکول ہیں جب کہ ریاست بھر میں 200 سے زائد مسلم ہائی اسکول ہیں۔

تمل ناڈو میں اگرچہ مسلم آبادی پانچ فی صد ہے لیکن ’تمل مسلم ایجوکیشن ایسوسی ایشن آف ساؤتھ انڈیا‘ کی کوششوں سے 18 مسلم انجینئرنگ کالجز، دو میڈیکل کالجز اور تین یونیورسٹیز ہیں۔ اسی طرح کیرالہ میں تو مسلمانوں کے بے شمار ڈگری کالجز ہیں۔

بی جے پی کے رہنما یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی جماعت جنوبی ریاستوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی۔ وہ کرناٹک میں کانگریس پر بھاری پڑے گی جب کہ تمل ناڈو میں ایک مضبوط قوت بن کر ابھرے گی۔

بی جے پی پرامید ہے کہ آندھرا پردیش میں سابق وزیر اعلیٰ چندرا بابو نائڈو کی جماعت تیلگو دیسم سے اتحاد کا اسے فائدہ پہنچے گا۔

لیکن بعض مبصرین کہتے ہیں کہ جنوب کی ریاستوں میں بی جے پی کی حالت اتنی خراب ہے کہ اس سے انتخابی اتحاد کرنے والی جماعتیں بھی مشکلات کا شکار ہیں۔

یاد رہے کہ جنوبی ریاستوں میں کسی بھی بڑی جماعت نے بی جے پی سے اتحاد نہیں کیا ہے۔

حیدر آباد میں سخت مقابلے کی توقع

ریاست تیلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد میں مسلم آبادی 70 فی صد ہے اور مقامی باشندوں کے مطابق حیدرآباد اویسی خاندان کا گڑھ ہے جہاں کسی اور جماعت کا چراغ نہیں جل سکتا۔

حیدرآباد سے چار بار رکنِ پارلیمنٹ رہنے والے اسد الدین اویسی ایک بار پھر میدان میں ہیں جن کا مقابلہ بی جے پی کی مادھوی لتا سے ہے۔

وزیرِ داخلہ امت شاہ نے حالیہ مہینوں میں حیدرآباد کا کئی بار دورہ کیا اور وہ ہر بار اپنی تقریر میں تیلنگانہ کو نظام کی حکومت‘ سے نجات دلانے کا وعدہ کرتے ہیں۔

یاد رہے کہ حیدرآباد ایک شاہی ریاست تھی جہاں نظام برسر اقتدار تھے۔ آزادی کے بعد یہ ریاست بھارت میں شامل ہو گئی۔ سن 1956 میں جب لسانی بنیاد پر ریاستوں کی تشکیلِ نو ہوئی تو اسے تین حصوں آندھرا پردیش، بامبے اسٹیٹ (موجودہ مہاراشٹر) اور کرناٹک میں تقسیم کیا گیا۔

'بھارت کا شہریت قانون بنیادی حقوق کے خلاف ہے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:09:13 0:00

اس دوران الگ تیلنگانہ ریاست کی تشکیل کا مطالبہ ہوتا رہا۔ لہٰذا دو جون 2014 کو تیلنگانہ نام کی الگ ریاست قائم ہو گئی جہاں لوک سبھا کی 17 نشستیں ہیں اور حیدرآباد کو اس کا دارالحکومت قرار دیا گیا۔

تیلنگانہ کی تحریک چلانے کے لیے 2001 میں قائم ہونے والی سیاسی جماعت تیلنگانہ راشٹر سمیتی (ٹی آر ایس) جس کا نام اب بھارت راشٹر سمیتی (بی آر ایس) ہو گیا ہے، پیش پیش تھی۔ اس کے صدر کے چندرشیکھر راؤ ہیں۔

سن 2014 میں جب اسمبلی انتخابات ہوئے تو ٹی آر ایس کو کامیابی ملی اور اس نے ریاست میں حکومت بنائی جب کہ 2014 کے عام انتخابات میں اسے 11 سیٹوں پر کامیابی ملی۔ لیکن 2019 کے انتخابات میں اس کی نشستیں کم ہو کر نو رہ گئیں۔

تیلنگانہ میں پہلے ٹی آر ایس کی حکومت تھی لیکن گزشتہ سال دسمبر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو کامیابی ملی اور یہاں اس کی حکومت ہے۔ اس وقت ریاست میں بی جے پی، کانگریس اور ٹی آر ایس کے درمیان سہ رخی مقابلہ ہے۔

بی جے پی نے ٹی آر ایس سے انتخابی اتحاد کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئی۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG