رسائی کے لنکس

افغان طالبان کو تسلیم کرنے میں پیش رفت انسانی حقوق پر ان کے طرز عمل پر انعام دینا ہے: تجزیہ کار


 ایرانی ہلال احمر کی ایک ہینڈ آؤٹ تصویرمیں افغانستان اور جنوب مشرقی ایرانی صوبہ سیستان اور بلوچستان کے درمیان ایران،افغانستان سرحد پر ایک ٹرک پر سوار افغان خواتین کے مصائب کی نشاندہی ہوتی ہے۔ فوٹو اے ایف پی۔ 19 اگست 2021
ایرانی ہلال احمر کی ایک ہینڈ آؤٹ تصویرمیں افغانستان اور جنوب مشرقی ایرانی صوبہ سیستان اور بلوچستان کے درمیان ایران،افغانستان سرحد پر ایک ٹرک پر سوار افغان خواتین کے مصائب کی نشاندہی ہوتی ہے۔ فوٹو اے ایف پی۔ 19 اگست 2021

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب طالبان روز بہ روز زیادہ سخت گیر رویہ اپنا رہے ہیں انہیں تسلیم کرنے کی جانب کسی نوعیت کی پیش رفت ،"ایک غلط رویے کو انعام دینے کے مترادف ہے، اور اس اقدام سے صرف طالبان کے ہی نہیں بلکہ تمام جہادی قوتوں کے حوصلے بلند ہوں گے۔

گزشتہ روز اقوام متحدہ کی ڈپٹی سیکریٹری جنرل امینہ محمد نے پرنسٹن یونیورسٹی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ دوحہ قطر میں ہونے والے اجلاس میں طالبان کو تسلیم کرنے کا معاملہ ایجنڈے پر ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان حکام کی جانب سے سفارتی طور پر تسلیم کیے جانے کے مطالبے پر تفصیلی گفتگو ہونی چاہیے۔

امینہ محمد نے کہا، ’’اورہمیں امید ہے کہ اس سے،ہمیں (طالبان کو) تسلیم کرنے، اصولی طور پر تسلیم کرنے کے راستے پر واپس لانے کے لیے چھوٹے اقدامات مل جائیں گے‘‘۔

امینہ محمد کا استدلال ہے کہ طالبان کو تسلیم نہ کرنے سے نقصان ہو رہا ہے۔

تاہم جمعرات کو امریکہ نے یکم سے دو مئی تک اقوام متحدہ کی میزبانی میں ہونے والی دوحہ کانفرنس میں افغان طالبان کو تسلیم کرنے سے متعلق بات چیت کے امکان کو مسترد کر دیا۔

امریکہ کے ایک عہدیدار نے اپنا نام صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ قطر کانفرنس کا مطلب قطعی طور پر طالبان کو تسلیم کرنے پر تبادلہ خیال نہیں ہے اور اگر اس حوالے سے کوئی بھی اجلاس میں بات کی جاتی ہے تو وہ ناقابل قبول ہو گی۔

وائس آف امریکہ کے لیے شہناز عزیز نے تجزیہ کاروں سے اقوام متحدہ کی ڈپٹی سیکرٹر ی جنرل آمنہ محمود کے بیان پر ان کا ردعمل معلوم کیا۔ اس حوالے سے نیولائنز انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر بخاری نے کہا کہ امینہ محمدنے ابھی افغانستان کا دورہ کیا ہے اوران کے خیال میں وہاں طالبان نےان کی پبلک ریلیشنز کی جو لائن ہے وہی اختیار کی ہوگی کہ ’’ہم اتنے برے نہیں جتنا آپ نے ہمیں بنا رکھا ہے۔آپ ہمارے کلچر کو تسلیم نہیں کرتے، ہمارا ایک قدامت پرست معاشرہ ہے اور ہم کو ئی ایسا کام نہیں کر رہے جو ہماری سوسائٹی نہیں کرتی‘‘۔

سیکیورٹی کے امور کے ماہر کامران بخاری کا یہ تجزیہ بھی ہے کہ اقوام متحدہ جیسے عالمی اداروں کا جو مائنڈ سیٹ ہوتا ہے اس میں وہ اسے ’جیو پولیٹیکل ‘ نقطہ نظر سےنہیں دیکھتے۔ وہ اسے ترقیات اور انسانی حقوق کے حوالے سے دیکھتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ایسی تجاویز سامنے آتی ہیں۔

تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ ایک طرح سے بین الاقوامی سطح پر ہونے والی پر ہونے والی گفتگو کا تسلسل ہے۔’’بہت سے ملک افغانستان کے ساتھ کسی نہ کسی طریقے کا رابطہ رکھنا چاہتے ہیں، لیکن ساتھ ہی وہ اسے تسلیم نہ کرنے کی بات بھی کرتے ہیں‘‘۔

بقول کامران کے ’’بنیادی طور پر یہ ایک طرح کا ’ڈی فیکٹو‘ لین دین ہے، لیکن دنیا باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کے لیے تیا نہیں ہے‘‘۔

کامران کہتے ہیں۔’’ اگر ہمیں طالبان کو اکیسویں صدی میں لانا ہے،انہیں ڈارک ایجز میں جانے سے بچانا ہےتو آپ کے پاس "لیوریج "ہونا چاہئے۔تسلیم کر لینے کے بعد تو آپ کے پاس کوئی لیوریج باقی نہیں بچے گا۔ جب ان کے پاس کوئی محرک نہیں ہوگا تو وہ آپ کی بات کیوں مانیں گے‘‘۔

وہ مزید کہتے ہیں افغانستان کو ڈوب جانے اور افرا تفری سے بچانے کے لیے آپ نے جو اقدامات کیے ہیں وہ ٹھیک ہیں ان کا جواز ہے، لیکن تسلیم کرنے کا مطلب ہر منفی ایکٹر کے حوصلے بلند کرنا ہے۔پھر تو پاکستان میں ٹی ٹی پی بھی کہے گی ہمیں تسلیم کر لو، کل کو کیا ہم اسلامک اسٹیٹ کو بھی تسلیم کرلیں گے؟ان میں اور ان میں کوئی خاص فرق تو ہے نہیں۔

سٹی یونیورسٹی آف نیویارک میں کریگ نیومارک گریجویٹ اسکول آف جرنلزم کے سینٹر فار کمیونٹی میڈیا کے ڈائریکٹر اور سینئر تجزیہ کار جہانگیر خٹک لیوریج کی توجیہ قدرے مختلف کرتے ہیں۔

ان کے خیال میں لیوریج سے مراد یہ ہے کہ چونکہ دنیا نےطالبان پر تقر یبأ تمام حربے استعمال کر لیے ہیں،ان کے متعدد لیڈر اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ میں شامل ہیں۔ان کے وزیر خارجہ سمیت صرف گیارہ افراد کو بین الاقوامی سفر کی اجازت ہے، تو میرے خیال میں وہ لیوریج کو بڑھانے کے لیے چاہتی ہیں کہ دوسری عالمی طاقتوں کی موجودگی میں طالبان کو میز پر بٹھا کر ان سے باقاعدہ طور پر کہا جائے کہ اگر آپ ہماری یہ تمام شرائط مان لیں تو پھر آپ کی حکومت کو تسلیم کرنے کا جو باقاعدہ پراسسس ہے وہ شروع ہو سکتا ہے۔انہوں نے یہ نہیں کہا کہ فوری طور پر مان لیں۔

اسی اثنا میں وائس آف امریکہ کے اکمل دعوی نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ امریکی محکمۂ خارجہ کے ایک ترجمان نے وی او اے کو بتایا کہ امریکی حکومت طالبان سے رابطہ کاری کے اپنے طریقۂ کار پر نظرثانی کر رہی ہے۔ یہ نظرثانی افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف طالبان کے بڑھتے ہوئے سخت اقدامات اور امتیازی سلوک کے تناظر میں کی جا رہی ہے۔

جہانگیر خٹک کہتے ہیں کہ فی الحال اس بارے میں مجھے بہت سے شبہات ہیں کیونکہ طالبان کا جو سخت گیر موقف ہے اس میں تو فی الحال کوئی تبدیلی نظر نہیں آ رہی بلکہ طالبان کے سربراہ ہبت اللہ اخوندزادہ نے حال ہی میں خواتین کے حقوق اور بچیوں کی تعلیم کے بارے میں کہا تھا کہ یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔

ان کے خیال میں،’’ناممکن تو نہیں کہنا چاہئے لیکن یہ مجھے اس وقت تک بہت مشکل لگ رہا ہے جب تک خود طالبا ن کے اندر کوئی تبدیلی نہ آئے۔خبریں آ رہی تھیں کہ خود طالبان کے اندر اب دو دھڑے بن گئے ہیں، ایک وہ جو خواتین کے حقوق کے خلاف ہے اور دوسرا ان کے حق میں ہے‘‘۔

’’ فرق صرف اس وقت پڑے گا جب ان کے اندر سے لوگ اٹھیں اور سوال کریں کہ آخر افغانستان کی آدھی آبادی کو گھر بٹھا دینے سے ملک کیسے ترقی کرے گا‘‘؟

XS
SM
MD
LG