رسائی کے لنکس

کرد اپوزیشن کے ٹھکانوں پر ایران کے ڈرون حملے میں 9 افراد ہلاک


کرد اپوزیشن کے ٹھکانوں پر ایرانی ڈرون حملے کے بعد کا منظر (وی او اے)
کرد اپوزیشن کے ٹھکانوں پر ایرانی ڈرون حملے کے بعد کا منظر (وی او اے)

ویب ڈیسک۔ کرد علاقائی حکومت کی وزارت صحت نے بتایا کہ بدھ کے روز ایک ایرانی ڈرون نے شمالی عراق میں ایرانی-کرد اپوزیشن گروپ کے ٹھکانوں کو لگا تار بمباری کا نشانہ بنایا جس میں کم از کم نو افراد ہلاک اور 32 دیگر زخمی ہو گئے۔

یہ حملے اس وقت کئے گئے جب ایران میں اس 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد مظاہرے جاری ہیں جسے ایرانی مورال پولیس (اخلاقی ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کرانے والی فورس) نے حراست میں لیا تھا۔

ایرانی کردستان کی ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن سوران نوری نے بتایا کہ ایران نے ان حملوں میں کویا کو نشانہ بنایا، جو اربیل سے تقریباً 65 کلومیٹر مشرق میں ہے۔

ایرانی-کرد اپوزیشن گروپ ، جسے KDPI کے مخفف سے جانا جاتا ہے، ایک بائیں بازو کی مسلح اپوزیشن فورس ہے جس پر ایران میں پابندی عائد ہے۔ ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی اور نشریاتی ادارے IRNA نے کہا کہ ملک کے پاسداران انقلاب نے عراق کے شمال میں علیحدگی پسند گروپ کاصحیح نشانہ لے کر خودکش ڈرونز سے حملہ کیا۔

عراق کی وزارت خارجہ اور کردستان کی علاقائی حکومت نے ان حملوں کی مذمت کی ہے۔

عراق کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ توقع ہے کہ بغداد میں حکومت ان حملوں پر سفارتی شکایت پیش کرنے کے لیے ایرانی سفیر کو طلب کرے گی۔

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے بدھ کی صبح ایران سے مطالبہ کیا کہ وہ مظاہرین کے خلاف ’’غیر ضروری یا غیر متناسب طاقت ‘‘ کے استعمال سے گریز کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ راکٹ ڈپلومیسی کے لاپرواہ عمل کے نتائج ایسے میں تباہ کن ہو سکتے ہیں جب ملک میں مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔

انٹونیو گوتریس نے ایک ترجمان کے ذریعے کہا کہ حکام کو فوری طور پر امینی کی موت کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرنی چاہیے، جس نے ایران کے صوبوں اور دارالحکومت تہران میں بدامنی کو جنم دیا ہے۔

اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجارک نے ایک بیان میں کہا کہ "ہمیں مظاہروں میں خواتین اور بچوں سمیت بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کی خبروں پر تشویش ہے۔ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ مہسا امینی کی موت کی ایک آزاد مجاز اتھارٹی کے ذریعے فوری، غیر جانبدارانہ اور موثر تحقیقات کی جائے۔

ایران کے کم از کم 46 شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں مظاہرے پھیل چکے ہیں۔ سرکاری ٹی وی نے اطلاع دی ہے کہ 17 ستمبر سے شروع ہونے والے مظاہروں کے بعد سے کم از کم 41 مظاہرین اور پولیساہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق حکام کی گنتی میں کم از کم 14 ہلاکتیں ہوئیں، 1500 سے زیادہ مظاہرین کو گرفتار کیا گیا۔

نیویارک میں قائم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے اس دوران کہا کہ ،کم از کم 23 صحافیوں کی گرفتاریوں کی تصدیق ہوئی ہے۔

ایران کی سرکاری IRNA نیوز ایجنسی نے بدھ کو اپنی رپورٹ میں پاسداران انقلاب کے جنرل حسن زادہ کے حوالے سے کہا کہ ایک رضاکار فورس کے 185 سپاہی ہنگاموں کے دوران چاقووں کے حملوں میں زخمی ہوئے، ۔ انہوں نے مزید کہا کہ پانچ رضاکار انتہائی نگہداشت کے ہسپتال میں داخل ہیں۔

اسی اثنا میں بدھ کے روز چار کاتیوشا راکٹ دارالحکومت بغداد کے بھاری ْقلعہ بند علاقے گرین زون میں گرے ۔اس وقت قانون ساز پارلیمنٹ میں جمع تھے۔ یہ زون ، جہاں امریکی سفارت خانہ بھی ہے، راکٹ اور ڈرون حملوں کا اکثر نشانہ بنتا رہتا ہے ۔ امریکہ ایران کے حمایت یافتہ عراقی ملیشیا گروپوں پر ان حملوں کا الزام لگاتا ہے۔

عراقی فوج نے اس سے قبل ایک بیان میں کہا تھا کہ ایک راکٹ پارلیمنٹ کے قریب، دوسرا پارلیمنٹ کے گیسٹ ہاؤس کے قریب اور تیسرا جوڈیشل کونسل کے قریب ایک جنکشن پر گرا۔ دو سیکورٹی اہلکاروں نے اے پی کو بتایا کہ چوتھا راکٹ بھی پارلیمنٹ کے قریب گرا۔

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی سیل فون فوٹیج میں پارلیمنٹ کی عمارت کے قریب کار پارک سے دھواں اٹھتا ہوا نظر آتا ہے۔

XS
SM
MD
LG