رسائی کے لنکس

سائنس یا خدا؟ ویب ٹیلی سکوپ کی دریافتوں کے بعد پراناموضوع پھر زیربحث


ناسا کے مطابق ویب ٹیلی اسکوپ نے کہکشاؤں کی جو تصاویر بھجوائیں، اس سے قبل کبھی نہیں دیکھی گئی تھیں (فائل فوٹو)
ناسا کے مطابق ویب ٹیلی اسکوپ نے کہکشاؤں کی جو تصاویر بھجوائیں، اس سے قبل کبھی نہیں دیکھی گئی تھیں (فائل فوٹو)

ویب ڈیسک۔ اس ماہ کے شروع میں جب ناسا کی سب سے بڑی اور طاقتور خلائی دوربین ’ ویب ٹیلی اسکوپ‘ کے ذریعے لی جانے والی تصاویر کو جاری کیا گیا تو امریکی سینیٹر مارکو روبیو نے ٹوئٹر پر ان میں سے ایک تصویر کو بائبل کی ایک آیت کے ساتھ شیئر کیا، "آسمان خدا کی عظمت کی گوائی دیتے ہیں" ۔

ویب ٹیلی اسکوپ زمین سے تقریباً 20 لاکھ کلومیٹر دور سورج کے گرد چکر لگا رہی ہے۔ یہ اسٹیشن انتہائی حساس انفراریڈ کیمروں کا استعمال کرتے ہوئے کائنات کی پہلی کہکشاوں کو تلاش کرنے کے مشن پر ہے۔ عوام کے لیے جاری کی گئی ابتدائی تصاویر نے آسمان کو روشن کرنے والی قدیم کہکشاؤں کی پہلی جھلک فراہم کی۔

سینیٹر روبیو کی پوسٹ پر تبصروں میں کہا گیا " آپ اسے صرف سائنس کی وجہ سے دیکھ سکتے ہیں" اور، "کاش آپ سائنسی طور پر اتنے پڑھے لکھے ہوتے کہ ان تمام طریقوں کو سمجھ سکتے جن سے یہ تصویر آپ کے افسانوں کو غلط ثابت کرتی ہے۔"

شکوک و شبہات کے اظہار والے تبصرے طویل عرصے سے جاری بحث کی کڑی ہیں کہ آیا سائنس اور مذہب کا ملاپ ہو سکتا ہے؟

جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کائنات کے اور کن رازوں سے پردہ اٹھائے گی؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:13 0:00

جیری اے کوئن ، حیاتیاتی ارتقا کے أمور کے ماہر ہیں اور شکاگو یونیورسٹی کے پروفیسر ایمریٹس ہیں۔وہ کہتے ہیں

"یہاں ان گنت مذاہب ہیں، ہر ایک مذہب حقیقت کے بارے میں مختلف دعوے کرتا ہے، نہ صرف اپنے اپنے خدا کی فطرت کے بارے میں، بلکہ تاریخ کے بارے میں، معجزات کے بارے میں، جو کچھ ہوچکا ہے اس کے بارے میں۔ اور وہ سب دعوے ایک دوسرے سے مختلف ہیں، اس لیے وہ سب سچ نہیں ہو سکتے"۔

جیری اے کوئن مذہب کو توہم پرستی سے تشبیہ دیتے ہیں۔ انہوں نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام تھا، "عقیدہ بمقابلہ حقیقت: سائنس اور مذہب کیوں مطابقت نہیں رکھتے۔"

جیری کوئن کہتے ہیں کہ غیر مطابقت یہ ہے کہ سائنس اور مذہب دونوں اس بارے میں بیان دیتے ہیں کہ کائنات میں کیا سچ ہے "سائنس کے پاس ان کی تصدیق کا ایک طریقہ ہے اور مذہب کے پاس کوئی طریقہ موجود نہیں ہے۔ لہذا، سائنس تجرباتی استدلال یا نقل کرنے والے تجربات ایسی سائنس ٹول کٹ پر مبنی ہے، جبکہ مذہب تیقن اور بھروسے پر مبنی ہے۔

کوئن کا کہنا ہے "سائنسدان، عام طور پر، عام لوگوں کے مقابلے میں بہت کم مذہبی ہوتے ہیں۔ اور سائنس دان کے طور پر آپ جتنے زیادہ کامیاب ہوں گے، آپ اتنے ہی کم مذہبی بنیں گے۔

1998 کے ایک سروے سے پتا چلا کہ نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کے، جو کہ امریکہ کی سب سے باوقار سائنسی تنظیموں میں سے ایک ہے، 93 فیصد اراکین خدا پر یقین نہیں رکھتے۔

سائنس اور عقیدے کی آمیزش

تاہم، دنیا کے چند سرکردہ سائنس دان ایسے بھی ہو گزرے ہیں جو باقاعدہ کسی مذہبی عقیدے پر یقین رکھتے تھے۔

بگ بینگ تھیوری، جو کائنات کی ابتداء کی وضاحت سے متعلق ہے، اسے سب سے پہلے ایک کیتھولک پادری نے تجویز کیا تھا ۔ وہ ایک ماہر فلکیات اور طبیعات کے پروفیسر بھی تھے۔

فرانسس کولنز جو نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے سابق سربراہ تھے اور وہ اس پہلی بین الاقوامی کوشش کی بھی قیادت کر رہے تھے جس میں مکمل انسانی جینوم کو پہلی مرتبہ متشکل کیا گیا۔ فرانسز جو کبھی ملحد تھے، آج ان کو ایک انجیل کے ماننے والے کرسچئین کے طور پر جانا جاتا ہے۔

بوسٹن یونیورسٹی میں آثار قدیمہ اور الیکٹریکل اور کمپیوٹر انجینئرنگ کے شعبوں کے پروفیسر فاروق الباز کہتے ہیں کہ سائنس کی دنیا کے ان کے زیادہ ترساتھی سائن سائنس اور مذہب کے درمیان کوئی تنازعہ نہیں دیکھتے ہیں۔ ایک اسلامی اسکالر کے صاحبزادے ایلباز کے لیے، ویب ٹیلی اسکوپ کی دریافتوں کا کمال مذہب اور سائنس دونوں کے تصورات کے بارے میں کچھ نہ کچھ سامنے لے آتا ہے۔

ایلباز جو بوسٹن یونیورسٹی میں سنٹر فار ریموٹ سینسنگ کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔

"سائنس دراصل مذہب کی اہمیت کو واضح کرتی ہے کیونکہ خدا نے ہمیں بتایا کہ اس نے زمین اور آسمان بنائے ہیں،" ان کے بقول۔ "اور توقع رکھی جاتی ہے کہ آسمانوں پر ہر طرح کی چیزیں موجود ہیں۔ اور سائنسی تحقیقات نے حقیقت میں یہ ثابت کیا ہے کہ ہاں، وہاں ہر طرح کی چیزیں موجود ہیں۔‘‘

بہت سے لوگوں کے لیے، سائنس اور مذہب کے درمیان تنازعات کی جڑیں کری ایشنلزم یعنی خدا کے ہاتھوں ہر چیز کے تخلیق پانے اور ایوولوشن، یعنی ارتقائی عمل سے چیزوں کے متشکل ہونے کے نظریات کے اندر پائی جاتی ہیں۔ تخلیق کائنات کے نظریے کے ماننے والے سمجھتے ہیں کہ ایک مطلق قوت نے زمین اور آسمان تخلیق کیے۔ نظریہ ارتقا کے ماننے والوں کا خیال ہے کہ زندگی کی موجودہ ہیئت احیا اور نشوونما کے ساڑھے چار ارب سال پر محیط سفر کا نتیجہ ہے۔

XS
SM
MD
LG