رسائی کے لنکس

’ بلبل مہران‘  روبینہ قریشی انتقال کر گئیں


بشکریہ ریڈیو پاکستان
بشکریہ ریڈیو پاکستان

معروف گلوکارہ روبینہ قریشی 81 برس کی عمر میں انتقال کر گئی ہیں۔ ’بلبل مہران‘کے نام سے شہرت پانے والی عظیم گلوکارہ گزشتہ چار سال سے کینسر میں مبتلا تھیں ۔

19 اکتوبر 1940 کو پاکستانی صوبہ سندھ کے شہر حیدرآباد میں پیدا ہونے والی روبینہ قریشی کا اصل نام عائشہ شیخ تھا، چونکہ ان کے بڑے بھائی عبدالغفور شیخ ایک مقامی گلوکار کے طور پر مشہور تھے، اس لئے موسیقی سے ان کے لگاؤ میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔

جب 1955 میں ریڈیو پاکستان کے حیدرآباد اسٹیشن نے نشریات کا آغاز کیا، تو انہوں نے بھی بطور چائلڈ گلوکارہ آڈیشن دیا جس میں وہ پہلی ہی کوشش میں کامیاب ہوگئیں۔

روبینہ قریشی کی اپنے خاندان کے ساتھ تصویر جو انہوں نے وائس آف امریکہ کے پروگرام میں شرکت کے موقع پر شہناز عزیز کو ارسال کی تھی۔
روبینہ قریشی کی اپنے خاندان کے ساتھ تصویر جو انہوں نے وائس آف امریکہ کے پروگرام میں شرکت کے موقع پر شہناز عزیز کو ارسال کی تھی۔

وہیں سے ان کے موسیقی کیرئیر کا آغاز ہوا جس میں انہوں نے ریڈیو اور ٹی وی کے ساتھ ساتھ علاقائی فلموں میں بھی اپنی آواز کا جادو جگایا۔

ساٹھ اور ستر کی دہائی میں انہوں نے پہلے ریڈیو پاکستان اور پھر پاکستان ٹیلی ویژن کے لئے اردو، سندھی، سرائیکی اور پنجابی زبان میں لاتعداد گیت گائے جو آج بھی مقبول ہیں۔

ان کی اصل وجہ شہرت ان کے سندھی گیت تھے جس سے انہوں نے دنیا بھر میں شہرت حاصل کی۔نہ صرف انہوں نے شاہ عبدالطیف بھٹائی کی شاعری کو اپنی آواز سے زندہ رکھا بلکہ سچل سرمست، بدھل فقیر اور دیگر سندھی شعراء کاکلام گایا ۔

ان کے مقبول گیتوں میں 'ڈاچی والیا' ، 'یار سجن جی فراق'، 'آئی مند ملہاری'، 'مور تو تلے رانا' اور 'نہ محلن میں سوہنی' قابلِ ذکر ہیں۔

یہی نہیں، انہوں نے سندھی زبان کی فلموں 'سسی پنوں ' اور 'گھونگٹ لاہ کنوار 'میں بھی اپنی آواز کا جادو جگایا۔ان کا شمار ان چند گلوکاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے پاکستان سے باہر بھارت، چین، انڈونیشیا، ترکی ، امریکہ اور برطانیہ میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا ۔

معروف اداکار مصطفیٰ قریشی کے ساتھ سے شادی کے موقع پر لی گئی ایک یادگار تصویر (بشکریہ عامر قریشی)
معروف اداکار مصطفیٰ قریشی کے ساتھ سے شادی کے موقع پر لی گئی ایک یادگار تصویر (بشکریہ عامر قریشی)

1970 میں انہوں نے ریڈیو پاکستان کے پروڈیوسر اور معروف اداکار مصطفیٰ قریشی سے شادی کرلی ۔اپنے شوہر کی فلمی مصروفیات کی وجہ سے وہ ستر کی دہائی میں لاہور منتقل ہوگئیں جہاں انہوں نے چھوٹے غلام علی کی زیر نگرانی اپنی موسیقی کی تربیت جاری رکھی۔

لاہور منتقل ہونے کے بعد انہوں نے گلوکاری کم کردی لیکن وقتا فوقتا ٹی وی اور ریڈیو پر پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں، 1960 سے 1980 کے درمیان ان کا شمار سندھی زبان کی مشہور گلوکاراؤں میں ہوتا تھا، اور آج بھی ان کے سندھی گیت لوگوں میں مقبول ہیں۔

موسیقی سے ان کی وابستگی کو ان کے بیٹے عامر قریشی نے جاری رکھا، اس وقت اپنی اداکاری کی وجہ سے مشہور ہونے والے عامر قریشی نے اپنے شوبزکیرئیر کا آغاز بطور ایک موسیقار و گلوکار کیا تھا بعد ازاں اداکاری میں قدم رکھا۔

اس سال 23 مارچ کو روبینہ قریشی کو تمغہ امتیاز ایوارڈ ملنا تھا لیکن وہ خراب صحت کی وجہ سے ایوارڈ لینے گورنر ہاؤس نہ جا سکیں اور ان کا ایوارڈ ان کے شوہر مصطفیٰ قریشی نے وصول کیا جو بذات خود پاکستان کی فلم انڈسٹری کا ایک بڑا نام ہیں۔

روبینہ قریشی کو موسیقی کی فیلڈ میں خدمات کے عوض صدارتی ایوارڈ کے علاوہ متعدد ایوارڈز بھی ملے جن میں خواجہ غلام فرید ایوارڈ ، لعل شہباز قلندر ایوارڈ اور شاہ لطیف ایوارڈ شامل ہیں۔

روبینہ قریشی نے گلوکاری کے ساتھ ساتھ اداکاری بھی کی تھی لیکن ان کی اصل وجہ شہرت ان کی سریلی آواز تھی جس کی وجہ سے انہیں بُلبُلِ مہران کا خطاب بھی دیا گیا۔

سندھ یونیورسٹی سے اسلامی تاریخ میں ماسٹر زکی ڈگری لینے والی روبینہ قریشی کچھ عرصے تک درس و تدریس کے شعبے سے بھی وابستہ رہیں اور لاہور منتقل ہونے سے پہلے حیدرآباد کے ایک مقامی اسکول میں پڑھاتی رہیں۔

روبینہ قریشی کے انتقال پر ملک کی معروف سیاسی شخصیات اور خاص طور پر سندھ سے تعلق رکھنے والے نامور لوگوں نے گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔

سابق صدر پاکستان اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری نے ان کے انتقال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ روبینہ قریشی نے اردو، سندھی ، سرائیکی اور دیگر زبانوں میں موسیقی کی خدمت کی، موسیقی کیلئے خدمات ناقابل فراموش ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور ملک کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی معروف گلوکارہ روبینہ قریشی کے انتقال پر دکھ کا اظہار کیا۔

اپنے پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ روبینہ قریشی کے انتقال سے دنیائے موسیقی کا ایک درخشاں ستارہ غروب ہوگیا، ان کی کمی ہمیشہ محسوس کی جاتی رہے گی۔

پاکستان پیپلز پارٹی ہی کی مرکزی رہنما نفیسہ شاہ نے بھی روبینہ قریشی کے انتقال پر انہیں خراج تحسین پیش کیا، ان کے بقول مائی بھاگی اور زرینہ بلوچ کے بعد روبینہ قریشی کی وفات سے سندھ نے ایک اور عظیم آوازکھو دی۔

معروف ٹی وی میزبان اور امریکہ میں مقیم ماہر تعلیم عادل نجم نے بھی روبینہ قریشی کو یاد کرتے ہوئے ان کا مقبول گیت 'ڈاچی والیا' ٹوئیٹ کیا، جو آج بھی لوگوں میں مقبول ہے۔

معروف صحافی اویس توحید اور مرتضیٰ سولنگی نے بھی روبینہ قریشی کے انتقال پر ان کو اپنے اپنے انداز میں یاد کیا۔ جہاں اویس توحید نے روبینہ قریشی سے اپنی آخری ملاقات کا ذکر کیا۔وہیں ریڈیو پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل مرتضیٰ سولنگی نے روبینہ قریشی کے گائے ہوئے گیت سوشل میڈیا پر شئیر کرکے انہیں یاد کیا۔

  • 16x9 Image

    عمیر علوی

    عمیر علوی 1998 سے شوبز اور اسپورٹس صحافت سے وابستہ ہیں۔ پاکستان کے نامور انگریزی اخبارات اور جرائد میں فلم، ٹی وی ڈراموں اور کتابوں پر ان کے تبصرے شائع ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد نام وَر ہالی وڈ، بالی وڈ اور پاکستانی اداکاروں کے انٹرویوز بھی کر چکے ہیں۔ عمیر علوی انڈین اور پاکستانی فلم میوزک کے دل دادہ ہیں اور مختلف موضوعات پر کتابیں جمع کرنا ان کا شوق ہے۔

XS
SM
MD
LG