مولانا فضل الرحمٰن کی ایم کیو ایم کی قیادت سے ملاقات
جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنماؤں سے ملاقات کے لیے کراچی پہنچے ہیں۔
ایم کیو ایم پاکستان کے بہادر آباد میں واقع مرکز پہنچنے پر متحدہ کے رہنماؤں نے مولانا فضل الرحمٰن کا استقبال کیا۔
پاکستان کے میڈیا کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن ایم کیو ایم کو حزبِ اختلاف میں شامل ہونے کی دعوت دے سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ مولانا فضل الرحمٰن حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈیم ایم) کے بھی سربراہ ہیں۔
حزبِ اختلاف کی جانب سے قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد پر حمایت کے حصول کے لیے اپوزیشن کے رہنما ایم کیو ایم کی قیادت سے کئی ملاقاتیں کر چکے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن ایم کیو ایم کی جلد حمایت کے اعلان کے لیے پر امید
جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی یقینی ہے۔ حکومت کے اتحادیوں کی حزبِ اختلاف کے ساتھ بھر پور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی قیادت سے کراچی میں ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ایم کیو ایم کو تحریک عدم اعتماد کی حمایت میں مزید ایک دن لگ سکتا ہے۔ حکومت کی حلیف تمام جماعتوں سے بات چیت جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ دو میں سے ایک فیصلہ ہو چکا ہے کہ حکومت کے حلیف ان کے ساتھ نہیں رہے اور اپوزیشن کا ساتھ دینے کا اعلان کرنے میں ان کو مزید وقت لگ سکتا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ او آئی سی کے اجلاس کی وجہ سے جلسے کے لیے 23 مارچ کے بجائے 25 مارچ کو کارکنان کو اسلام آباد آنے کے لیے کہا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی معیشت اور مرکزی بینک اختیار سے نکل چکے ہیں۔ سالانہ تخمینہ صفر سے نیچے جا چکا ہے۔ ڈالر 185 روپے سے اوپر جا رہا ہے اور مہنگائی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ حالات بدلتے ہیں اس سے نئی راہیں نکلتی ہیں۔
ایم کیو ایم کے مطالبات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اشارہ دے چکی ہے کہ ایم کیو ایم کے مطالبات تسلیم کر لیے جائیں گے اور سندھ کے بلدیاتی قانون میں ان کی تجاویز شامل کی جائیں گی۔
اپوزیشن نے 'قوت اُخوت عوام چارٹر' جاری کر دیا
پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں 'قوت اُخوت عوام چارٹر' جاری کر دیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں آئین پاکستان کی حرمت، شفاف انتخابات کے لیے اصلاحات اور سیاست میں غیر جمہوری مداخلت ختم کی جائے گی۔
اپوزیشن جماعتوں کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد کو کامیاب بنا کر ایسا پاکستان تشکیل دیں گے، جہاں آئین کی حرمت مقدم ہو اور تمام انتظامی ادارے ایک منتخب انتظامیہ اور پارلیمنٹ کے تابع ہوں۔
اعلامیہ میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ ہے کہ تمام منتخب ادارے عوام کے سامنے جوابدہ ہوں گے۔ عوام کو یہ اختیار حاصل ہو گا وہ اپنے آزادانہ حقِ رائے دہی کے ذریعے انہیں منتخب اور رخصت کر سکیں۔
“قوت اخوت عوام چارٹر” میں اس بات کا بھی اعلان کیا ہے کہ سیاست سے ہر قسم کی غیر جمہوری مداخلت ختم کی جائے گی۔
آزادی اظہار اور میڈیا پہ عائد تمام پابندیاں ختم کی جائیں گی اور 'کالے' میڈیا قوانین ختم اور غیر جمہوری مداخلت کا نظام بند کروائیں گے۔
صدارتی ریفرنس کی سماعت کے لیے بنائے گئے بینچ پر جسٹس فائز عیسٰی معترض
سپریم کورٹ کے جج جسٹس فائز عیسٰی نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس پر بنائے گئے بینچ پر اعتراضات اُٹھا دیے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے نام لکھے گئے خط میں جسٹس فائز عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ بینچ میں سپریم کورٹ کے سینئر ججز کو شامل نہ کرنے کی روایت سے انحراف ہوا۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے سوال اُٹھایا کہ اس ریفرنس پر سماعت کے لیے بینچ پہلے ہی تشکیل کیوں دے دیا گیا جو اس وقت تک دائر ہی نہیں ہوا تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی پٹیشن اور ریفرنس کو یکجا نہیں کیا جا سکتا۔ صرف انصاف نہیں بلکہ انصاف ہوتا نظر بھی آنا چاہیے۔
سپریم کورت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے صدارتی ریفرنس پر سماعت کے لیے پانچ رُکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔ بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔