بھارت کی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ جس کے بعد بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم ہو جائے گی۔
نئی دہلی میں وائس آف امریکہ کے نمائندے سہیل انجم کے مطابق بھارت کی راجیہ سبھا میں وزیر داخلہ امِت شاہ نے شور شرابے کے باوجود کشمیر سے متعلق قوانین میں تبدیلی کے لیے بل ایوان میں پیش کیے۔
امِت شاہ نے یہ بھی کہا کہ جموں و کشمیر مرکز کے زیر انتظام ایک الگ خطہ بنے گا اور ریاست کی تشکیل نو کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ جس دن صدر اس قرارداد پر دستخط کریں گے اسے گزٹ میں شائع کر دیا جائے گا اسی دن سے یہ دفعہ کالعدم ہو جائے گی۔
امِت شاہ نے جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں یعنی لداخ اور جموں و کشمیر میں تقسیم کرنے کا بل بھی پیش کیا۔
بل کے مطابق لداخ کے پاس چنڈی گڑھ کی مانند مقننہ ہوگی جبکہ جموں و کشمیر کے پاس دہلی اور پڈوچیری کی مانند مقننہ ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ لداخ کے عوام عرصہ دراز سے اسے مرکز کے زیر انتظام خطہ قرار دینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
امِت شاہ کے مطابق سرحد پار سے دراندازی اور سیکورٹی صورت حال کے پیش نظر جموں و کشمیر کو یونین ٹیریٹری بنایا جائے گا۔
پارلیمنٹ میں مذکورہ قراردادوں کے پیش کیے جانے سے قبل سلامتی سے متعلق کابینہ کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں وزیر اعظم نریندر مودی، امت شاہ، وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ، وزیر خارجہ جے شنکر اور سلامتی سے متعلق دیگر اعلٰی حکام نے شرکت کی۔
دفعہ 370 اور 35 اے ہے کیا؟
بھارت کے آئین کے آرٹیکل 35-اے کے تحت بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں زمین اور دوسری غیر منقولہ جائیداد خریدنے، سرکاری نوکریوں اور وظائف، ریاستی اسمبلی کے لیے ووٹ ڈالنے اور دوسری مراعات کا قانونی حق صرف اس کے مستقل باشندوں کو حاصل ہے۔
اس آئینی شق کے تحت جموں و کشمیر کے قدیم باشندوں کے لیے خصوصی حقوق اور استحقاق کا تعین کرنے کا اختیار ریاستی قانون ساز اسمبلی کو حاصل ہے.
بھارت کے آئین کی دفعہ 370 کے تحت ریاست جموں کشمیر کو یونین میں ایک خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ دفعہ 35 آئین کی ایک اور دفعہ 370 کی ذیلی شق ہے۔ بھارت کی سپریم کورٹ میں دفعہ 35-اے کے خلاف کئی درخواستیں زیرِ سماعت ہیں-
بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) عرصہ دراز سے جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت کی مخالف رہی ہے اور یہ اس کے انتخابی منشور کا بھی اہم حصہ رہا ہے۔
آرٹیکل 370 کے تحت بھارتی حکومت دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کے علاوہ دیگر اہم معاملات پر قانون سازی کے لیے کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کی مرہون منت ہے۔
ایوان بالا میں ہنگامہ آرائی اور اپوزیشن کا ردعمل
بل پیش کیے جانے کے دوران راجیہ سبھا میں شدید ہنگامہ آرائی دیکھنے میں آئی۔ پارلیمانی امور کے وزیر پرہلاد جوشی نے اپوزیشن ارکان کی سرزنش کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امِت شاہ نے جواہر لعل نہرو کی ایک تاریخی غلطی کی اصلاح کر دی ہے۔
کشمیر کی علاقائی پارٹیوں کا کہنا ہے کہ دفعہ 370 کا خاتمہ جموں و کشمیر اور لداخ کے عوام کے خلاف جارحیت ہے۔
سابق وزیر اعلٰی جموں و کشمیر محبوبہ مفتی نے ایک ٹوئٹ کرکے کہا کہ آج کا دن بھارتی جمہوریت کا ایک سیاہ دن ہے۔ مرکزی حکومت کی جانب سے یکطرفہ طور پر دفعہ 370 کا خاتمہ غیر قانونی و غیر آئینی ہے۔ اس سے بھارت کو کشمیر میں ایک ”غاصب فورس“ کا درجہ مل جائے گا۔
بھارتی کشمیر صورتحال بدستور کشیدہ
اس سے قبل بھارت کے زیر اتنظام کشمیر میں حکومت نے دفعہ 144 نافذ کرتے ہوئے جلسوں اور ریلیوں پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔ جب کہ اہم کشمیری رہنماؤں محبوبہ مفتی، عمر عبداللہ اور سجاد لون کو نظر بند کر دیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق حکام نے سری نگر میں شہریوں کی نقل و حمل بھی محدود کر دی ہے۔ وادی کے مختلف علاقوں میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس بھی معطل کر دی گئی ہے۔
نظر بند کیے گئے رہنماؤں سابق وزیر اعلٰی عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی نے اتوار کو رات گئے اپنی نظر بندی کے خدشات کا اظہار بذریعہ ٹوئٹ کیا تھا۔
کشمیر میں حالیہ کشیدگی کا آغاز اس وقت ہوا جب بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے حکام نے پاکستان کے حمایت یافتہ گروپ کے ممکنہ حملے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے ہنگامی اقدامات کا اعلان کیا تھا۔
پاکستان نے بھارت کے اس الزام کی سختی سے تردید کی تھی۔
حکام نے وادی میں سیاحت اور عبادات کے لیے آئے سیاحوں کو فوری طور پر ریاست سے نکلنے کی ہدایات جاری کی تھیں۔ اس ضمن میں سری نگر ایئرپورٹ سے اضافی پروازیں بھی آپریٹ کی گئیں۔
بھارت کی جانب سے اضافی فوج بھی ریاست کے مختلف علاقوں میں طلب کر لی گئی تھی۔ جس کی وجہ سے سیاح اور عوام تشویش میں مبتلا ہو گئے تھے۔
مختلف علاقوں میں لوگ بڑے پیمانے پر اشیائے خورونوش کی خریداری اور پیٹرول جمع کرتے دکھائی دیے۔
نیا حکم نامہ ہے کیا؟
بھارت کی حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے حکم نامے کے تحت سری نگر میں نقل و حمل پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ جب کہ تمام تعلیمی ادارے بھی غیر معینہ مدت کے لیے بند رکھنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔
حکام کی جانب سے ریاست میں ہر طرح کے سیاسی اجتماعات، جلسے اور ریلیاں نکالنے پر تاحکم ثانی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کا نظم و نسق نئی دہلی سے ہی چلایا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ گزشتہ سال بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا مقامی جماعت کے ساتھ الحاق ختم ہونا ہے۔
نظر بندی کے بعد اپنی ایک ٹوئٹ میں سابق وزیر اعلی عمر عبداللہ کا کہنا تھا کہ نہیں معلوم بھارتی حکومت ہمارے ساتھ کیا کرنے والی ہے۔ انہوں نے لوگوں سے پرامن رہنے کی بھی اپیل کی ہے۔