امریکہ میں منافرت کی بنیاد پر کیے جانے والے جرائم کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور گزشتہ سال ان جرائم کی شرح میں 11 ستمبر 2001ء کے حملوں کے فوری بعد پیش آنے والے واقعات کی نسبت سب سے زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
امریکی تحقیقاتی ادارے 'ایف بی آئی' کے مطابق 2017ء کے دوران امریکہ بھر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس 7175 نفرت انگیز جرائم کی شکایات درج کرائی گئیں۔
'ایف بی آئی' کے مطابق یہ مسلسل تیسرا سال ہے جب ملک میں منافرت پر مبنی جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سے قبل 2016ء میں ایسے جرائم کی تعداد 6121 ریکارڈ کی گئی تھی۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مطابق 2017ء کے دوران پیش آنے والے 60 فی صد سے زائد واقعات میں افراد کو انفرادی سطح پر حملوں کا نشانہ بنایا گیا یا ڈرایا دھمکایا گیا۔
اعداد و شمار کے مطابق ان جرائم کا سب سے زیادہ نشانہ افریقی نژاد امریکی بنے جن کے بعد یہودیوں کا نمبر رہا۔
'ایف بی آئی' ہر سال امریکہ میں نفرت انگیز جرائم کی صورتِ حال سے متعلق یہ رپورٹ جاری کرتی ہے جو پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر مرتب کی جاتی ہے۔
'ایف بی آئی' کے مطابق وہ ہر اس مجرمانہ فعل کو "منافرت پر مبنی جرم" قرار دیتی ہے جس کا ملزم قوم، مذہب، معذوری، صنف، نسل یا جنسی رجحان کے خلاف اپنے جذبات کے زیرِ اثر کسی بھی شخص یا کسی کی ملکیت کے خلاف ارتکاب کرے۔
'ایف بی آئی' کے مطابق اب تک ایجنسی کے اہلکار ان جرائم کی وجہ بننے والے 34 عوامل کا تعین کرچکے ہیں جن میں سے 2017ء میں 29 کی بنیاد پر ہونے والے جرائم میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال بیشتر نفرت انگیز جرائم نسل اور مذہب کے فرق کی بنیاد پرپیش آئے۔ نسل اور قومیت کی بنیاد پر پیش آنے والے جرائم کی تعداد 18 فی صد اضافے کے ساتھ 4832 رہی۔
مذہب کی بنیاد پر ہونے والے جرائم کی شرح میں 23 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور یہ تعداد 1564 رہی۔ ان میں سے سب سے زیادہ واقعات (لگ بھگ 900) یہودیوں کے خلاف پیش آئے۔
رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی پر مبنی جرائم کی شرح میں 2017ء کے دوران 13 فی صد کمی واقع ہوئی اور پورے سال کے دوران ایسے کل 273 واقعات رپورٹ ہوئے۔
امریکہ میں شہری حقوق کی انجمنیں اور سماجی حلقے ملک میں بڑھتی ہوئی منافرت کا الزام ٹرمپ حکومت پر بھی عائد کرتے رہے ہیں اور ان کا موقف ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ایسے جرائم کی روک تھام کے لیے مناسب اقدامات نہیں کر رہی ہے۔