بلوچستان میں کچھ نوجوان فن کاروں نے لوک موسیقی کو فروغ دینے کے لیے 'کوک اسٹوڈیو' کی طرز پر 'فوک اسٹوڈیو' بنایا ہے جس میں وہ لوک گانوں کو نئے انداز میں پیش کر رہے ہیں۔ مرتضیٰ زہری ہمیں ملوا رہے ہیں ان فن کاروں سے، جو بتا رہے ہیں کہ اس اسٹوڈیو کی ضرورت کیا تھی اور اس کا فائدہ کیا ہو گا۔
بلوچستان کی قومی شاہراہوں پر ٹریفک حادثات میں ہر سال درجنوں جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ حال ہی میں صوبائی حکومت نے میڈیکل ایمرجنسی رسپانس سینٹرز قائم کیے ہیں۔ حکام کا دعویٰ ہے کہ ان کی مدد سے ٹریفک حادثات میں ہونے والی اموات کم ہو رہی ہیں۔ مرتضیٰ زہری کی رپورٹ۔
بلوچستان میں بھی پنجاب کی طرح بلامقابلہ انتخاب کی کوششیں ناکام ہونے کے بعد بدھ کو صوبے سے 12 سینیٹرز کے انتخاب کے لیے پولنگ ہو گی۔
پولیس حکام کے مطابق تین روز قبل ایک شخص کو ڈکیتی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ملزم کے قبضے سے پانچ ماہ قبل اغوا ہونے والے اسد اچکزئی کے گاڑی برآمد ہوئی۔ ملزم نے ان کے قتل کا اعتراف کیا۔
پنجگور حکام کے مطابق ایرانی فورسز کی فائرنگ سے ایک پاکستانی شہری بہادر خان زخمی ہوا ہے جسے ضلعی اسپتال میں طبی امداد دی جا رہی ہے۔
بلوچستان کے بعض قبائلی نجومی بکرے کی ہڈی سے آنے والے واقعات کی پیش گوئی کا فن جانتے ہیں۔ اس ہڈی کو مقامی زبان میں 'بڑدست' کہا جاتا ہے جو بلوچ قبائل میں زمانۂ قدیم سے پیش گوئی کا بڑا ذریعہ رہی ہے۔ نجومیوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں اس ہڈی سے تمام خبریں مل جاتی ہیں۔ کیسے؟ جانیے مرتضیٰ زہری کی اس رپورٹ میں۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق بازیاب ہونے والے افراد کے گھروں میں خوشی کا سماں ہے لواحقین نے اپنے عزیزوں کےخیریت سے گھر پہنچنے پر سکھ کا سانس لیا۔
تمپ میں لیویز اہلکاروں کے مطابق کریمہ بلوچ کی تمپ میں تدفین کے اعلان کے بعد 23 اور 24 جنوری کی درمیانی شب سے ضلع کیچ کے اکثر علاقوں میں موبائل نیٹ ورک کو جام کر دیا گیا۔
حیات مرزا بلوچ کو پانچ ماہ قبل فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا تھا۔ مکران کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے فیصلہ سنایا۔ ابتدا میں قتل کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا تھا۔
بلوچستان کے علاقے مچھ میں پیش آنے والے واقعے میں ہلاک ہونے والے 11 کان کنوں کے لواحقین کے ساتھ حکومت کے مذاکرات کامیاب ہو گئے جس کے بعد مظاہرین نے دھرنا ختم کرکے ہلاک ہونے والے کان کنوں کی تدفین کر دی۔
وزیرِ اعظم کا کہنا ہے کہ بھارت پاکستان میں فرقہ وارانہ انتشار پھیلانا چاہتا ہے۔ مچھ واقعہ اسی سازش کا حصہ ہے۔ کراچی میں علما کا قتل بھی اسی سازش کا حصہ تھا۔
وزیرِ اعلیٰ بلوچستان نے جمعرات کو ایک بار پھر سانحہ مچھ میں قتل ہونے والے کان کنوں کے لواحقین سے میتوں کی تدفین کی درخواست کی ہے۔ تاہم شرکا نے اپنا احتجاج جاری رکھا۔
وزیرِ اعظم عمران خان کی ہدایت پر وفاقی وزیر علی حیدر زیدی اور زلفی بخاری نے دھرنے کے شرکا سے ملاقات کی۔ اس موقع پر لواحقین نے دھرنا ختم کرنے سے انکار کرتے ہوئے وزیرِ اعظم کی کوئٹہ آمد کا اپنا مطالبہ دہرایا۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ جب تک وزیرِ اعظم عمران خان خود کوئٹہ آکر دھرنے کے شرکا کو مستقبل میں دہشت گردی کے ایسے واقعات کی روک تھام کی یقین دہانی نہ کرا دیں اس وقت تک احتجاج ختم نہیں کیا جائے گا۔
شیعہ تنظیم 'مجلس وحدت المسلمین' بھی دھرنے میں شامل ہو گئی ہے۔ مظاہرین نے میتیں بھی سڑک پر رکھی ہوئی ہیں اور شدید سرد موسم میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔
مقامی لیویز اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ نامعلوم مسلح افراد نے مچھ کے علاقے گیشتری کے کوئلہ فیلڈ میں کام کرنے والے کان کنوں کو آدھی رات کو اغوا کیا۔
گوادر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے صوبائی وزیرِ داخلہ میر ضیا لانگو نے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ جام کمال خان نے عوام کی خواہشات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے باڑ لگانے کا کام روکنے کا حکم دیا ہے۔
ایف سی کی چیک پوسٹ پر نامعلوم مسلح افراد نے ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب حملہ کیا۔ پانچ اہلکار زخمی بھی ہوئے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ قوم بھارت کی پشت پناہی کے حامل دہشت گردوں کے حملوں کا سامنا کرنے والے سپاہیوں کے ساتھ کھڑی ہے۔
مزید لوڈ کریں