عاصم علی رانا وائس آف امریکہ اردو کے لئے اسلام آباد سے رپورٹنگ کرتے ہیں۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے متعلق لب و لہجے میں تلخی بڑھتی جا رہی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق عمران خان اپنے تمام آپشنز استعمال کر چکے ہیں جب کہ پی ٹی آئی رہنما کے مطابق فوجی سربراہ کے خلاف سخت لہجہ حکمتِ عملی ہو سکتی ہے۔
اسلام آباد کی ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کنور معیز نے نومبر 2023 میں سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ مئی 2017 میں جنرل فیض حمید کی ایما پر ٹاپ سٹی کے دفتر اور اُن کی رہائش گاہ پر آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے ریڈ کی۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ کی بندش کو دو ماہ گزر چکے ہیں لیکن اس معاملے کا اب تک کوئی حل سامنے نہیں آ سکا ہے۔ بدھ کو عدالت میں وزارتِ داخلہ نے جواب جمع کرایا ہے کہ ایکس کا پاکستان میں دفتر نہیں اور ایکس نے حکومتی احکامات پر عمل نہیں کیا، اس لیے اس پر پابندی لگانا ضروری تھا۔ عاصم علی رانا کی رپورٹ۔
فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن نے 2017 کے دھرنے کی ذمہ داری اس وقت شہباز شریف کی وزارتِ اعلیٰ میں قائم مسلم لیگ (ن) کی پنجاب حکومت پر عائد کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب حکومت کی طرف سے مارچ کی اجازت دینا نا مناسب عمل تھا۔ رپورٹ میں فیض حمید سمیت فوجی افسران کو کلین چٹ دے دی ہے۔
بین الاقوامی اُمور کے تجزیہ کار حسن عسکری کہتے ہیں کہ ہم ہر دورے مین بڑی توقعات لے کر جاتے ہین لیکن بعد میں مایوسی ہوتی ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی رہائی سے متعلق اطلاعات حالیہ دنوں میں زیادہ زیرِ گردش ہیں۔ بعض مبصرین غیر مصدقہ رپورٹس کی بنیاد پر دعویٰ کر رہے ہیں کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی رواں ماہ یا پھر مئی تک جیل سے باہر آ سکتے ہیں۔
بشریٰ بی بی کی جانب سے اُنہیں زہر دینے جانے کے الزام کو دہراتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ بشریٰ بی بی کے کھانے میں ٹائلٹ کلینر ملایا جا رہا ہے۔ عدالت نے بشریٰ بی بی کے مکمل طبی معائنہ کے لیے درخواست دینے کی ہدایت کی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ نیب ریفرنس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزا معطل کر دی ہے۔ عدالت کی جانب سے سابق وزیرِ اعظم اور ان کی اہلیہ کو وہ ریلیف دیا گیا ہے جس کی ان کے وکلا نے استدعا ہی نہیں کی تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے ملک کی طاقت ور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی پر الزامات پر چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لے لیا ہے اور اس معاملے کو سماعت کے لیے مقرر کرکے سات رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا ہے۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق انکوائری کمیشن تعین کرے گا کہ کوئی اہلکار براہ راست مداخلت میں ملوث تھا؟
سپریم کورٹ آف پاکستان نے نو مئی واقعات میں ملوث افراد کے فوجی عدالتوں میں محفوظ شدہ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دے دی ہے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ 20 کے قریب افراد ایسے ہیں جن کی عید سے قبل رہائی ممکن ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے سپریم جوڈیشل کونسل کو خفیہ اداروں کی طرف سے عدالتی معاملات میں مبینہ مداخلت پر خط لکھنے کے بعد بار ایسوسی ایشنز نے ججوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے بھی ججوں کے مطالبے کی حمایت کی ہے۔
خط لکھنے والے ججز نے اپنے اوپر دباؤ کی کوششوں سے متعلق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو 2023 اور 2024 میں لکھے خطوط بھی شامل کیے ہیں۔جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ججز کے ساتھ پیش آنے والے مختلف واقعات بھی خط میں شامل ہیں۔
وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک نے صحافیوں سے غیر رسمی بات چیت میں کہا تھا کہ حکومت لابنگ سمیت متعلقہ فورمز پر تیکنیکی، سیاسی اور اقتصادی بنیادوں پر استثنیٰ کی کوشش کرے گی۔
دوران سماعت عدالت نے اٹارنی جنرل منصور عثمان کو روسٹرم پر طلب کیا اور جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ کیا ملزمان میں کسی کی رہائی ہوئی ہے یا ہوسکتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹرائل مکمل ہوچکا ہے لیکن ابھی فیصلے نہیں سنائے گئے۔
سپریم کورٹ نے صدر کی جانب سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کا جاری کردہ نوٹی فکیشن کالعدم قرار دیا۔ شوکت عزیز صدیقی کو اکتوبر 2018 میں ججز کے ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی پر عہدے سے برطرف کیا گیا تھا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ملک میں سیاسی استحکام نہ آنے کی صورت میں قرض کے پیسے ضائع ہو جائیں گے۔ آمدن کے ذرائع نہ بڑھانے تک آئی ایم ایف سے قرض لینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
قانونی ماہرین کے مطابق آن لائن ہراسانی کے واقعات میں 11 سے 15 سال تک کے بچے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اس میں بچے نہیں بلکہ والدین ذمے دار ہیں جنہوں نے بچوں کو آن لائن رہنے کے لیے موبائل فونز اور دیگر ڈیجیٹل آلات کی اجازت دے رکھی ہے۔
بدھ کی صبح سپریم کورٹ پہنچے تو معمول سے زیادہ سیکیورٹی اور رش نظر آیا۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کے کارکن موجود نہیں تھے۔ لیکن بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پیپلزپارٹی کے رہنما سپریم کورٹ میں موجود تھے۔
اسد طور کی وکیل ایمان زینب مزاری نے دعویٰ کیا ہے کہ اسد طور کو ایف آئی اے میں بعض ایسے لوگ بھی مل رہے ہیں جن کا تعلق ایف آئی اے سے نہیں ہے۔ وہ لوگ ایف آئی اے افسران کو پرچیوں پر سوالات لکھ کر دے رہے ہیں۔
مزید لوڈ کریں