محمد حبیب زادہ/ذبیح اللہ غازی
سنہ 2018 کے آغاز ہی سے افغانستان کے مشرقی صوبہٴ ننگرہار میں 70 سے زائد دہشت گرد حملے ہوئے، جن میں 260 ہلاک جب کہ 500 سے زائد زخمی ہوئے۔ یہ بات نگرانی پر مامور ایک افغان تنظیم نے بتائی ہے جو ملک بھر میں تشدد کی کارروائیوں اور شہری آبادی کی ہلاکت پر نگاہ رکھتی ہے۔
اِن میں سے زیادہ تر ہلاکتیں خودکش بم حملوں کے نتیجے میں واقع ہوئیں۔
’وائس آف امریکہ‘ کو بھیجی گئی ایک رپورٹ میں ’سولین پراٹیکشن اینڈ ایڈووکیسی گروپ (سی پی اے جی)‘ نے کہا ہے کہ صوبے میں، جو افغانستان میں داعش کی اس شاخ کے پیدائش کی جگہ ہے۔ اندازوں کے مطابق، یہاں 700 سے زائد شہری ہلاک و زخمی ہو چکے ہیں۔
عزیز احمد تسال ’سی پی اے جی‘ کے سربراہ ہیں۔ اُنہوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’سب سے زیادہ ہلاکتیں خودکش حملوں کے نتیجے میں واقع ہوئیں، جب کہ سڑک کنارے نصب بم دھماکوں کے باعث ہلاکتوں کی تعداد دوسرے نمبر پر ہے‘‘۔
بقول اُن کے، ’’ہلاکتوں کی اصل تعداد جمع کیے گئے اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے، چونکہ (صوبے کے) دور دراز علاقوں میں پہنچنا مشکل ہے‘‘۔
تنظیم نے سال 2018ء کےجنوری سے جولائی کے چھ ماہ کے دوران، دہشت گرد حملوں کے اعداد و شمار اکٹھے کیے ہیں۔
سی پی اے جی کے مطابق، صوبے میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں اِسی عرصے کے دوران افغان سکیورٹی افواج کے ہاتھوں 52 شہری ہلاک جب کہ 33 زخمی ہوئے۔ اِن میں سے چند کارروائیاں افغان اور امریکی قیادت والی افواج کی مشترکہ کارروائیاں تھیں۔
افغان اہلکاروں نے کہا ہے کہ صوبے میں اُن کی کارروائیاں محتاط طریقے سے تیار کی گئیں اور اُن پر عمل درآمد ہوا تاکہ شہری آبادی کو ہلاکت سے بچایا جا سکے۔
اس ماہ کے اوائل میں، صوبے میں ایک خودکش حملہ آور کی دھماکہ کرنے کی کوشش کو ناکام بنایا گیا، جب ایک افغان فوجی نے داعش کے دہشت گرد کو پکڑ لیا۔
اس کوشش میں، فوجی محمد عمر اور تین دیگر افراد کی جانیں گئیں۔
صوبے میں داعش ہی سرگرم گروپ نہیں۔ حالیہ مہینوں کے دوران، طالبان سرکشوں نے بھی حملے کیے ہیں۔ افغان سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کے علاوہ، صوبے کے زیادہ علاقے پر قابض ہونے کے لیے دونوں گروپ آپس میں گھمسان کی لڑائی کرتے رہے ہیں۔
داعش کی مایوسی
گذشتہ ہفتے تشدد کی کارروائیوں کی نئی لہر کے دوران دارالحکومت جلال آباد میں ایک انتخابی دفتر پر کیے گئے خودکش حملے کی ذمے داری داعش نے قبول کی ہے، جس میں دو شہری ہلاک جب کہ چار زخمی ہوئے۔
سلامتی پر مامور دو سکیورٹی اہلکاروں نے الزام لگایا ہے کہ مایوسی کی شکار داعش یہ دکھانا چاہتی ہے کہ وہ ایک طاقتور گروپ ہے۔
ننگرہار کے پولیس سربراہ، جنرل غلام صنائی ستانکزئی نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’دولت اسلامیہ کو صوبے میں شدید جانی نقصان ہوا ہے، خاص طور پر پاچر وان آگم اور دہ بالا اضلاع میں۔ یہی وجہ ہے کہ داعش نے اپنی کوششیں بڑھا دی ہیں، وہ زیادہ حملے کر رہی ہے، اُسے مکمل طور پر صفایا ہوجانے کا خوف لاحق ہے‘‘۔
دہ بالا ضلع ننگرہار میں داعش کا گڑھ سمجھتا جاتا تھا، جب تک جولائی میں امریکی اور افغان خصوصی افواج نے اس پر قبضہ حاصل نہیں کیا تھا۔