بھارت میں دنیا کا سب سے بڑا لاک ڈاؤن
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے 24 مارچ کو قوم سے خطاب میں کہا تھا کہ ہر ریاست، ہر ضلع، ہر گلی اور ہر گاؤں تین ہفتوں کے لیے بند کیا جا رہا ہے۔ لاک ڈاؤن 21 دن تک جاری رہے گا۔ اگر ان 21 دن میں احتیاط نہ کی گئی تو ملک اور عوام 21 سال پیچھے چلیں جائیں گے۔ یہ اعلان ممبئی کی ایک کچی بستی میں رہنے والی مینا رمیش نے بھی ٹی وی پر سنا تھا لیکن اسے اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ آنے والے دن اس کے لیے کس قدر سخت ہوں گے۔
بھارتی عوام کو 21 دن کے لاک ڈاؤن کے لیے صرف 4 گھنٹے کا موقع دیا تھا جس کے بعد لاک ڈاؤن شروع ہوگیا۔ اس لاک ڈاؤن کے خاتمے سے پہلے ہی اس میں 3 مئی تک توسیع کر دی گئی۔ اس سے انتہائی غریب آبادی کے لیے بیک وقت کئی مسائل کھڑے ہوگئے۔ مینا اور اس کا خاندان ایسے افراد میں شامل ہے جن کی یومیہ آمدنی دو ڈالرز (150 ہندوستانی روپے) کے مساوی بھی نہیں۔
مینا اور اس کے خاندان کے پانچ افراد کے لیے 6 بائی 9 فٹ کے کمرے میں ساتھ رہنا، جن کے پاس کوئی کام نہیں، کسی قید سے کم نہیں۔
مینا کا ایک بیٹا رہتک رمیش اس کے لیے خوشیوں کا باعث اور بڑھاپے کا واحد سہارا ہے۔ دن بھر ممبئی کی سڑکوں پر اپنے شوہر کے ہمراہ پلاسٹک کی سستی بالٹیاں اور ٹوکریاں فروخت کرکے جب وہ گھر واپس آتی تھی تو رہتک کی صرف ایک مسکراہٹ اس کی ساری تھکن دور کردیا کرتی تھی مگر اب کرونا کے سبب وہ گھر سے باہر نہیں نکل سکتی۔
لاک ڈاؤن کے سبب مینا کی یومیہ آمدنی بھی ختم ہوگئی ہے۔ بھارت کی معیشت گزشتہ دو دہائیوں سے مسلسل ترقی کی جانب گامزن ہے۔ بڑی تعداد میں لوگوں کی غربت دور ہوئی ہے لیکن مینا کے خاندان کے افراد ابھی بھی ایسے افراد میں شامل نہیں۔
لاک ڈاؤن سے پہلے اسے محلے والوں کی جانب سے مفت کھانا مل جایا کرتا تھا مگر اب یہ سلسلہ بھی ختم ہو گیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق لاک ڈاؤن بھارت جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک امتحان ہے ۔ جس میں یہ سبق بھی شامل ہے کہ بنگلہ دیش سے نائیجیریا تک کے ممالک اپنے غریب ترین شہریوں کو بھی بدتر بھوک اور مزید بدحالی پر مجبور کیے بغیر کوویڈ 19 کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
بھارت کی حکومت کی جانب سے طویل لاک ڈاؤن کو انسانی تاریخ کا انتہائی سخت معاشرتی تجربہ کہا جا رہا ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران صرف کھانا، ادویات یا دیگر اشیائے ضروریہ خریدنے کی اجازت ہے۔ کاروبار، تجارتی سرگرمیاں بند ہیں۔ اسکول کالج بھی کوئی نہیں جا رہا جب کہ کھیل کے میدان ویران پڑے ہیں۔ اسے میں گھروں میں پانی اور ٹوائلٹ کی سہولت نہ ہونا ایک بڑا مسئلہ ہے۔
مینا رمیش جاکھوڈیا کے شوہر رمیشن کو دور دراز کے علاقوں سے پینے کا صاف پانی لانا پڑتا ہے جب کہ رفع حاجت کے لیے جنگلوں، میدانوں اور ریلوے لائنز کے قریب جانا پڑتا ہے۔ خواتین دن میں رفع حاجت کے لیے گھروں سے نہیں نکل سکتیں اور صرف رات کو ہی محفوظ مقامات پر جا پاتی ہیں جس سے اکثر خواتین بیمار ہو جاتی ہیں۔
بھارت میں جہاں لاکھوں لوگوں کے لیے معاشرتی دوری ناممکن ہے، وہاں خطرہ یہ ہے کہ لاک ڈاؤن شہروں اور دیہاتوں کے لیے تباہی کا سبب نا بن جائے۔ مثلاً ممئی میں ایک مربع میل میں 77 ہزار افراد رہتے ہیں یہ شرح نیو یارک سٹی سے تقریبا 3 گنا زیادہ ہے۔ لوگ اپنی صحت پر خرچ کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ طبی نظام ملک کے بہت سارے حصوں میں بمشکل ہی کام کرتا ہے۔ بڑے شہروں سے باہر سرکاری اسپتالوں تک عوام کی رسائی محدود ہے۔ اسپتالوں میں صفائی کا مناسب انتظام نہیں جب کہ دیہات میں تیسرے درجے کے ڈاکٹرز ہی دستیاب ہوتے ہیں لہذا کرونا وائرس کے متاثرین ایسے بھی کس قدر تکلیف میں مبتلا ہوسکتے ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔