امریکی اخبارات سے: 2014ء کے بعد، امریکی فوج کا کردار

صدر حامد کرزئی نے امریکہ کے ساتھ سلامتی کے ایک معاہدے پر غور کرنے کے لئے ایک روایتی لوئے جرگہ طلب کر رکھا ہے، جس پر بہت سے لوگوں کو وحشت ہوتی ہے، کیونکہ وہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتے ہیں
امریکہ افغانستان کے ساتھ سنہ 2014 کے بعد اپنی کُچھ فوج اس ملک میں پیچھے چھوڑنے کے بارے میں جو مذاکرات کر رہا ہے، اُس پر ’لاس انجلیس ٹائمز‘ کے تجزیہ کار ڈیوڈ ذکی نو رقمطراز ہیں کہ اُس ملک کا ایک صدر ہے اور ایک پارلیمنٹ ہے جن پر قومی سلامتی کے اہم فیصلے کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ لیکن، اس کے باوجود، صدر حامد کرزئی نے امریکہ کے ساتھ سلامتی کے ایک معاہدے پر غور کرنے کے لئے ایک روایتی لوئے جرگہ طلب کر رکھا ہے، جس پر بہت سے لوگوں کو وحشت ہوتی ہے، کیونکہ وہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتے ہیں۔

یہ جرگہ جمعرات کو کابل میں شروع ہونے والا ہے جس میں پورے ملک سے آئے ہوئے 2700 مندوبین سخت حفاظتی انتظامات میں پانچ روز تک ایک خیمے کے اندر جمع ہو کر کھائیں گے، پئیں گے اور بحث کریں گے۔

ایک سال سے ایک سمجھوتے پر مذاکرات جاری ہیں کہ سنہ 2014 کے اختتام پر بین الاقوامی فوجوں کے انخلا کے بعد، کابل اور واشنگٹن کے مابین کس قسم کا تعاون ہوگا۔

اب لوئے جرگے سے اُس معاہدے پر دستخط ہونے میں مزید تاخیر ہوجائے گی، جس میں دوسری باتوں کے علاوہ یہ طے ہوگا کہ آیا جرائم کے ملزم امریکی فوجیوں پر امریکہ کے قانون کا اطلاق ہوگا، اور آیا امریکی فوجوں کو دہشت گرد باغیوں کے تعاقب میں افغان گھروں میں داخل ہونے کی اجازت ہوگی۔

عراق کے ساتھ سنہ 2011 میں اسی قسم کا معاہدہ نہیں ہو سکا تھا۔ نتیجتاً اس ملک میں اب کوئی امریکی فوجی نہیں ہے۔ افغانستان میں امریکہ اپنے فوجی مشیر پیچھے چھوڑ دینا چاہتا ہے، جو افغان فوجیوں کو تربیت دیں گے اور افغان فوجوں کو لوجسٹکس امداد فراہم کریں گے۔ اس کے علاوہ انسداد دہشت گردی کے مقصد کے لئے بھی خصوصی امریکی فوجیں افغانستان میں موجود رہیں گی۔ لیکن، اب 15نومبر کی حتمی تاریخ گذر جانے کے بعد کرزئی کی حکومت نے لوئے جرگہ بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔

مسٹر کرزئی کو اصرار ہے کہ ممتاز افغان شہریوں سے مشورہ کرنا ضروری ہے۔ اگرچہ آئین کی رُو سے، کسی معاہدے کو منظور کرنے کا اختیار پارلیمنٹ کو ہے اور وہ لوئے جرگہ کے فیصلے کو ردّ بھی کر سکتی ہے۔

لیکن، صدر کو اصرار ہے کہ وہ جرگے کی منظوری کے بغیر، معاہدے پر دستخط نہیں کریں گے جس کے ارکان اُنہیں کے نامزد کردہ ہیں، مقصد یہ ہے کہ ان پر امریکہ کے ساتھ بالا بالا سودا کرنے کا الزام نہ آئے۔


اخبار کے مطابق، پچھلے ہفتے مذہبی علماٴ اور قبائیلی عمائدین کی ایک تنطیم نے مجوّزہ معاہدے کے خلاف ایک ریلی نکالی، جب کہ طالبان نےدھمکی دی کہ لوئے جرگہ میں شرکت کرنے والوں کو سزا دی جائے گی۔

حقّانی نیٹ ورک کے ایک اہم لیڈر نصیرالدّین حقانی کی اسلام آباد کے مضافات میں ہلاکت پر ’کرسچن سائینس مانٹر‘ کہتا ہے کہ اس سے اب یہ گمان ہونے لگا ہے کہ اس شہر کو امریکہ کے مہلک دشمنوں کے لئے محفوظ جگہ ہونے کا جو شہرہ تھا وُہ کہیں ختم ہونے کے قریب تو نہیں۔

اخبار کہتا ہے کہ اوسامہ بن لادن کے مقابلے میں، جو ایبٹ آباد میں ایک محفوظ مکان میں چھپا ہوا تھا، نصیرالدین حقّانی اسلام آباد میں جہاں اُس کے متعدّد مکان تھے، عیش و عشرت کی زندگی گُذار رہا تھا، جہاں وُہ اکثر و بیشتر دارالحکومت کی مارکیٹوں اور ریستورانوں میں گھومتا پھرتا تھا۔

اُسے ایک بیکری سے ڈبل روٹی خریدتے ہوئے گولی مار ہلاک کیا گیا تھا۔

اخبار نے ریٹائرڈ برگیڈئر محمود شاہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اسلام آباد میں کیا کر رہاتھا، کیونکہ حقّانی نیٹ ورک کے بارے میں خیال یہی تھا کہ وہ شمالی وزیرستان کے قبائیلی علاقے کے دوردراز علاقے میں مصروف کار ہے۔ اور اُس کی ہلاکت سے ایک ہفتے قبل پاکستانی طالبان کے لیڈر حکیم اللہ محسود ایک ڈرون حملے میں ہلاک ہوا تھا۔

اخبار کہتا ہے کہ حقانی کی ہلاکت اس بات کی یاد دہانی ہے کہ جو افغان عسکریت پسند افغانستان میں نیٹو فوجوں کو مارنے پر تلے ہوئے ہیں، اُن کے لئے پاکستان محفوظ علاقہ ہے۔


امیر لوگ امیر تر ہوتے جا رہے ہیں۔ لیکن، اس کے باوجود وُہ غریبوں اور مسکینوں کےلئے کافی کُچھ نہیں کر رہے۔

اس عنوان سے پیبلو آیزن برگ، انٹرنیٹ اخبار ’ہفنگٹن پوسٹ‘ میں رقم طراز ہے کہ پچھلے 20 سال کے دوران امریکہ کے متّمول ترین شہریوں کی دولت میں اتنا اضافہ ہوا ہے کہ اُن میں بڑی بھاری رقوم ایسے اداروں کو دینے کی صلاحیت ہے جہاں سے کسی منافع کی توقع نہیں کی جا سکتی اور وہ ایسی یونیورسٹیوں اور عمارات کی امداد پر دل کھول کر پیسہ لُٹاتے ہیں جو اُن کے نام سے منسوب ہوں۔ لیکن، وہ معاشرتی سروسز، بے گھر لوگون، مفلسوں، فاقہ مستوں یا اُن اداروں کو بہت کم مالی امداد دیتے ہیں جو معاشرے میں بہتری لانا چاہتے ہیں۔