ایران کے خلاف ’تمام تعزیرات‘ ہٹانے کے لئے واحد معاہدہ یہی ہو سکتا ہے کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت نہ رہے: نیو یارک ٹائمز
واشنگٹن —
معروف تجزیہ کار، تھامس فریڈمان نے’نیو یارک ٹائمز‘ میں ایک کالم میں اُن شرائط پر بحث کی ہے جِن کی بنیاد پر ایران کے جوہری پروگرام پر کوئی معاہدہ طے پا سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس میں شک نہیں کہ ایران کے خلاف لگائی گئی تعزیرات کو جُزوی طور پر ہٹانے کے لئے، ایک ایسا عارضی سمجھوتہ کرنے کی ضرورت ہے جس کے بعد ایران کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرم کے کلیدی اجزاٴمنجمد ہو جائیں اور تمام تعزیرات ہٹانے کے لئے واحد معاہدہ یہی ہو سکتا ہے کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت نہ رہے۔
لیکن، فریڈمان کی نظر میں، اس کے علاوہ بھی ایک چیز ہے جسے ملحوظ نظر رکھنا ضروری ہے اور جسے ببانگ دُہل کہنا ضروری ہے۔ اور وُہ یہ ہے کہ امریکہ نےاسرائیل اور خلیج کی سُنّی مملکتوں کے لئے ایک ایسا سودا طے کرنے کے لئے وکالت کا ذمہ نہیں اُٹھایا ہے، جس میں حرف آخر کا حق اِنہیں ملکوں کو ہو۔ امریکہ کے بھی کُچھ اپنے مفادات ہیں، جو محض ایران کی جوہری صلاحیت کو روکنا نہیں، بلکہ ایران اور امریکہ کے مابین اُس 34 سالہ سرد جنگ کو ختم کرنا بھی ہے جس نے نہ صرف امریکہ کے بلکہ اُس کے اسرائیلی اور عرب دوست ممالک کے مفادات کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ لہٰذا، امریکہ کو اپنے مفادات پر اصرار کرتے ہوئے اور کسی ایسے معاہدے کو روکنے کی عرب اسرائیلی کوشش کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے جو امریکہ کی دانست میں دونوں کےلئے فائدہ مند ہو۔
فریڈمان کہتے ہیں کہ یہ کہنا آسان ہے کہ ہم جو چاہتے ہیں، اگر وہ حاصل نہ ہوا، تو ہمیں مذاکرات سے قطع تعلق کرنا چاہئے۔ لیکن، ایران کو الگ تھلگ کرنا اُتنا آسان نہیں رہا، جتنا ایک وقت ہوا کرتا تھا۔ ایران کے معاملے میں چین، روس، ہندوستان اور جاپان کے مفادات ہم سے مختلف ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ صدر اوبامہ کے مذاکرات کار ایک ایسے سمجھوتے پر پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایران کی جوہری صلاحیت کے خاتمے کا آغاز ہو اور یہ بھی کہ آیا اس کے علاوہ بھی کچھ حاصل ہو سکتا ہے۔ اور بنیادی طور پر یہ سب کچھ امریکہ کے مفاد میں ہے۔
’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ افغانستان سےامریکی مراجعت کے ساتھ ساتھ کئی افغان بھی گھربار چھو ڑ کر بھاگ رہے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ اگست کے مہینے تک جنگ کی وجہ سے اور طالبان کی دھمکیوں کے پیش نظر پانچ لاکھ نوے ہزار افغان گھر سے بے گھر ہوچُکے تھے۔ اقوام متحدہ کے عہدہ داروں کو تشویش ہے کہ امریکی قیادت میں غیر ملکی فوجیں جب ملک سے نکل آئیں گی، تو پناہ گزینوں کا انخلاٴ بھی شروع ہوجائے گا۔ اور جو لوگ یک سر ملک چھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں، اُن کا پہلا پڑاؤ ایران یا پاکستان ہوتا ہے۔ ان میں سے بعض صاحب ثروت لوگ یورپ یا آسٹریلیا کا رُخ کرتے ہیں۔
پچھلے سال 38 ہزار افغان صنعت یافتہ ملکوں میں پہنچنے اور سیاسی پناہ لینے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ تعداد کسی اور ملک سے آنے والے پناہ گزینوں سے کہیں زیادہ ہے اور سنہ 2001 میں امریکی حملے کے بعد سے سب سے بڑی تعداد ہے۔
پناہ گزینوں کے لئے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر کی ایک خفیہ ابتدائی رپورٹ میں جو ’وال سٹریٹ جرنل‘ کے مشاہدے میں آئی ہے، کہا گیا ہے کہ اگلے سال دو لاکھ افغان پناہ گزین پاکستان اور ایران کا رُخ کریں گے۔
نیو یارک کی ایک تقریب میں، مختلف شعبوں میں نام پیدا کرنے والی خواتین کو سال کی گلیمر خواتین کے ایوارڈ تقسیم کئے گئے ہیں اور ’نیو یارک نیوز ڈے‘ اخبار کہتا ہے کہ اس تقریب میں یہ ایوارڈ پانے والی کسی بھی خاتوں کی سٹیج پر آمد پر اتنی پذیرائی نہیں ہوئی، جتنی پاکستان کی تعلیم نسواں کی سولہ سالہ مجاہدہ ملالہ یوسف زئی کی۔
کارنیگی ہال کی اس تقریب میں موجود بالکنی سے لڑکیوں کے ایک ٹولے نے نعرہ لگایا، ’ملالہ تُم ہمیں بہت عزیز ہو‘۔ اور، اخبار کے بقول، ملالہ کے مداحوں میں محض حاضرین ہی نہیں تھے، بلکہ یہ ایوارڈ پانے والی دوسری خواتین بھی اُن میں شامل تھیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اس میں شک نہیں کہ ایران کے خلاف لگائی گئی تعزیرات کو جُزوی طور پر ہٹانے کے لئے، ایک ایسا عارضی سمجھوتہ کرنے کی ضرورت ہے جس کے بعد ایران کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرم کے کلیدی اجزاٴمنجمد ہو جائیں اور تمام تعزیرات ہٹانے کے لئے واحد معاہدہ یہی ہو سکتا ہے کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت نہ رہے۔
لیکن، فریڈمان کی نظر میں، اس کے علاوہ بھی ایک چیز ہے جسے ملحوظ نظر رکھنا ضروری ہے اور جسے ببانگ دُہل کہنا ضروری ہے۔ اور وُہ یہ ہے کہ امریکہ نےاسرائیل اور خلیج کی سُنّی مملکتوں کے لئے ایک ایسا سودا طے کرنے کے لئے وکالت کا ذمہ نہیں اُٹھایا ہے، جس میں حرف آخر کا حق اِنہیں ملکوں کو ہو۔ امریکہ کے بھی کُچھ اپنے مفادات ہیں، جو محض ایران کی جوہری صلاحیت کو روکنا نہیں، بلکہ ایران اور امریکہ کے مابین اُس 34 سالہ سرد جنگ کو ختم کرنا بھی ہے جس نے نہ صرف امریکہ کے بلکہ اُس کے اسرائیلی اور عرب دوست ممالک کے مفادات کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ لہٰذا، امریکہ کو اپنے مفادات پر اصرار کرتے ہوئے اور کسی ایسے معاہدے کو روکنے کی عرب اسرائیلی کوشش کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے جو امریکہ کی دانست میں دونوں کےلئے فائدہ مند ہو۔
فریڈمان کہتے ہیں کہ یہ کہنا آسان ہے کہ ہم جو چاہتے ہیں، اگر وہ حاصل نہ ہوا، تو ہمیں مذاکرات سے قطع تعلق کرنا چاہئے۔ لیکن، ایران کو الگ تھلگ کرنا اُتنا آسان نہیں رہا، جتنا ایک وقت ہوا کرتا تھا۔ ایران کے معاملے میں چین، روس، ہندوستان اور جاپان کے مفادات ہم سے مختلف ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ صدر اوبامہ کے مذاکرات کار ایک ایسے سمجھوتے پر پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایران کی جوہری صلاحیت کے خاتمے کا آغاز ہو اور یہ بھی کہ آیا اس کے علاوہ بھی کچھ حاصل ہو سکتا ہے۔ اور بنیادی طور پر یہ سب کچھ امریکہ کے مفاد میں ہے۔
’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ افغانستان سےامریکی مراجعت کے ساتھ ساتھ کئی افغان بھی گھربار چھو ڑ کر بھاگ رہے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ اگست کے مہینے تک جنگ کی وجہ سے اور طالبان کی دھمکیوں کے پیش نظر پانچ لاکھ نوے ہزار افغان گھر سے بے گھر ہوچُکے تھے۔ اقوام متحدہ کے عہدہ داروں کو تشویش ہے کہ امریکی قیادت میں غیر ملکی فوجیں جب ملک سے نکل آئیں گی، تو پناہ گزینوں کا انخلاٴ بھی شروع ہوجائے گا۔ اور جو لوگ یک سر ملک چھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں، اُن کا پہلا پڑاؤ ایران یا پاکستان ہوتا ہے۔ ان میں سے بعض صاحب ثروت لوگ یورپ یا آسٹریلیا کا رُخ کرتے ہیں۔
پچھلے سال 38 ہزار افغان صنعت یافتہ ملکوں میں پہنچنے اور سیاسی پناہ لینے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ تعداد کسی اور ملک سے آنے والے پناہ گزینوں سے کہیں زیادہ ہے اور سنہ 2001 میں امریکی حملے کے بعد سے سب سے بڑی تعداد ہے۔
پناہ گزینوں کے لئے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر کی ایک خفیہ ابتدائی رپورٹ میں جو ’وال سٹریٹ جرنل‘ کے مشاہدے میں آئی ہے، کہا گیا ہے کہ اگلے سال دو لاکھ افغان پناہ گزین پاکستان اور ایران کا رُخ کریں گے۔
نیو یارک کی ایک تقریب میں، مختلف شعبوں میں نام پیدا کرنے والی خواتین کو سال کی گلیمر خواتین کے ایوارڈ تقسیم کئے گئے ہیں اور ’نیو یارک نیوز ڈے‘ اخبار کہتا ہے کہ اس تقریب میں یہ ایوارڈ پانے والی کسی بھی خاتوں کی سٹیج پر آمد پر اتنی پذیرائی نہیں ہوئی، جتنی پاکستان کی تعلیم نسواں کی سولہ سالہ مجاہدہ ملالہ یوسف زئی کی۔
کارنیگی ہال کی اس تقریب میں موجود بالکنی سے لڑکیوں کے ایک ٹولے نے نعرہ لگایا، ’ملالہ تُم ہمیں بہت عزیز ہو‘۔ اور، اخبار کے بقول، ملالہ کے مداحوں میں محض حاضرین ہی نہیں تھے، بلکہ یہ ایوارڈ پانے والی دوسری خواتین بھی اُن میں شامل تھیں۔