امریکی اخبارات سے: ’این ایس اے‘ کا مستقبل

مسٹر اوبامہ نے وعدہ کیا ہے کہ باوجودیکہ انٹلی جنس اور قانون کا نفاذ کرنے والے اداروں کے پاس وہ آلات برقرار رہیں گے جو ملک کو محفوظ رکھنے کے لئے ضروری ہیں، اُنہیں خاطر جمع رکھنی چاہئے کہ وہ جو اصلاحات تجویز کر رہے ہیں، اُن سے اُن کے حقوق محفوظ ہو جائیںٕ گے
جمعے کے روز صدر اوبامہ نے نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے مُستقبل کے بار ے میں جو پالیسی تقریر کی، اُس پر ’شکاگو ٹریبیون‘ کہتا ہے کہ اُنہوں نے امریکی عوام اور غیر ملکیوں دونوں کی یقین دہانی کردی کہ امریکہ رازداری کے بارے میں اُن کی اُن تشاویش کا پورا خیال کرے گا؛ جو اس ایجنسی کی وسیع پیمانے کی مانٹرنگ کے بارے میں اس ادارے کے سابق ملازم ایڈورڈ سنو ڈن کے انکشافات کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں۔

مسٹر اوبامہ نے وعدہ کیا کہ باوجود یکہ انٹلی جنس اور قانون کا نفاذ کرنے والے اداروں کے پاس وہ آلات برقرار رہیں گے جو ملک کو محفوظ رکھنے کے لئے ضروری ہیں، اُنہیں خاطر جمع رکھنی چاہئے کہ وہ جن اصلاحات کی تجویز کر رہے ہیں، اُن سے اُن کے حقوق محفوظ ہو جائیںٕ گے۔

اُنہوں نے وعدہ کیا کہ امریکہ کےدوست اور اتّحادی ملکوں کے سربراہانِ مملکت اور حکومت کے نامہ و پیام کو ایجنسی ہاتھ نہیں لگائے گی۔

اخبار نے انتظامیہ کے عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس کا اطلاق درجنوں لیڈروں پر ہوگا، اور اس اقدام کا ایک مقصد مثلاً امریکہ اور جرمنی کے کشیدہ تعلقات کو ٹھیک کرنا بھی ہے، کیونکہ پچھلے سال یہ اطلاعات آئی تھیں کہ نیشنل سیکیورٹی ایجنسی جرمن چانسلر انگیلا مرکل کا موبائیل فون مانٹر کرتی رہی ہے۔ امریکہ کی ان حرکتوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے برازیل کی صدردِلما رُو سیف نے بھی واشگٹن کا سرکاری دورہ موخّر کر دیا تھا۔

اخبار کہتا ہے کہ مسٹر اوبامہ یہ قواعد اس لئے رو بہ عمل لا رہے ہیں، تاکہ وہ تیزی کے ساتھ بدلتی ہوئی دیکھ بھال کی اُس ٹیکنالوجی کی مطابقت میں ہوں جو عالمی سطح پر اس ایجنسی کے تجزیہ کار پرائیویٹ مواصلات کو مانٹر کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔


صدر اوبامہ نے اس کی بھی وضاحت کر دی کہ سنوڈن کے انکشافات پر اُن کی حکومت کو جو غصّہ ہے، اُس میں سرِ مُو فرق نہیں آیا ہے۔ سنوڈن اس وقت روس میں مقیم ہے، اور وہ جاسوسی کے الزام میں امریکہ میں مطلوب ہے۔ اگرچہ، بعض امریکیوں کا منشا ہے کہ اُسے معاف کر دینا چاہئے، کیونکہ اُن کی نظر میں اس نے ایسے راز افشا کئے ہیں، جن کا منظر عام پر لانا ضروری تھا۔

عالمی سطح پر
، مشرق وسطیٰ کا خطّہ فی زمانہ جس فرقہ وارارنہ کشیدگی کے دور سے گُذر رہا ہے، ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے کالم نویس، فرید ذکریا نے اُسے کیتھولکوں اور پروٹسٹوں کے مابین اس مذہبی تناؤ سے مشابہ قرار دیاہے، جو اصلاحات کے دور میں یورپ میں موجود تھا۔ پچھلے چند ماہ سے مشرق وسطیٰ معمول سے کہیں زیادہ تشدّد کا شکار نظر آرہا ہے، جہاں عراق اور شام اور دوسرے علاقوں میں بدترین قسم کی خانہ جنگی جاری ہے۔

وُہ کہتے ہیں کہ ان کشیدگیوں کی جڑیں تاریخ اور سیاسیات میں پائی جاتی ہیں، اور اِن سے آسانی کے ساتھ چُھٹکارا نہیں حاصل کیا جا سکتا۔ اس صورت حال کی ذمُہ داری وہ تین چیزوں پر ڈالتے ہیں، جن میں سے سب سے پہلے ان ملکوں کا ڈھانچہ ہے، اور جنہیں پہلی عالمی جنگ کے خاتمے پر نو آبادیاتی طاقتوں، یعنی انگریزوں اور فرانسیسیوں نے تخلیق کیا تھا۔ اور اُن میں جن مختلف النوع قومیتوں کو یک جا کیا گیا، وُہ ایک اکائی کی حیثیت سے کبھی کسی حکمران کے تحت نہیں تھیں۔ عراق ایک ایسی ہی مثال ہے۔ اس ملک کو سلطنت عُثمانیہ کے تین ایسے صوبوں کو ملا کر قائم کیا گیا تھا، جن میں کوئی بات مشترک نہیں تھی۔

نو آبادیاتی طاقتوں نے ایسے حکمرانوں کا انتخاب کیا، جن کا تعلق اقلیت سے ہوتا اور جو، بقول تجزیہ کار کے، ایک عیارانہ چال تھی، کیونکہ ایک اقلیتی حکومت کو اپنا تسلّط برقرار رکھنے کے لئے کسی بیرونی طاقت کی مدد کی ضرورت رہتی ہے۔

شام میں جب فرانسیسیوں کو قوم پرستوں کی طرف سے 1930 ءاور 1940 ء کی دہائیوں میں بغاوت کا سامنا کرنا پڑا، تو اُنہوں نے علوی اقلیت میں سے بھاری تعداد میں رنگروٹ بھرتی کئے۔ اب یہی علوی فرقہ ملک کی فوج اور خاص طور اس کے افسروں کے طبقے میں چھایا ہوا ہے۔

کالم نگار کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں تشدّد کی ایک وجہ اسلامی اساس پسندی کی بڑھتی ہوئی رو ہے، جس کی ذمہ داری ایک طرف سعودی عرب سے وہابی مسلک کا پرچار ہے، تو دوسری طرف، ایرانی انقلاب۔ اور اس خطے میں سیکیولر جمہوریتیں جب فوجی ڈکٹیٹرشپ میں بدل گئیں، تو مغربی اقدار کے خلاف نفرت پھیلنے لگی۔


عالمی سطح پر، عراق میں تشدد کی وارداتوں میں اضافے کے پس منظر میں بُش دور کے کئی عہدہ داروں یہ کہنا شروع کیا ہے کہ اگر امریکہ کی چند ہزار فوجیں عراق میں موجود رہتیں اور سنّی عسکریت پسندوں کے خلاف لڑنے کے ساتھ ساتھ مالکی حکومت پر زیادہ دباؤ ڈالا جاتا، تو حالات مختلف ہوتے۔

لیکن، کالم نگار کا کہنا ہے کہ اس قسم کی سوچ، مشرق وسطیٰ میں جاری تشدّد کی اصل نوعیت سے بے خبری کا نتیجہ ہے، کیونکہ اگر امریکہ نے ایک مرتبہ پھر مشرق وسطیٰ میں فوجی مداخلت کی، تو یہ جلتی پر تیل پھینکنے کے مترادف ہوگا۔