امریکی اخبارات سے: شمالی کوریا اور چین کی ذمہ داری

’اگر چین آج سے شروع کرے تو وہ اُس مکروہ اور مضحکہ خیز بہروپ کا خاتمہ کر سکتا ہے جو اِس وقت شمالی کوریا کی شکل میں موجود ہے، اور اِس طرح وہ ، امریکہ کے ساتھ مل کر جزیرہ نما کوریا کو متحد کرنے کا کارنامہ سرانجام دے سکتے ہیں‘: تجزیہ نگار این ایپل بام
’واشنگٹن پوسٹ‘ میں تجزیہ نگار، این ایپل بام کہتی ہیں کہ اگر چین کو اپنی عزت عزیز ہے تو اُسے شمالی کوریا کے سلسلے میں کوئی کارروائی کرنی چاہیئے۔

وہ کہتی ہیں کہ چین ایک تیزی سے ترقی کرنے والی اقتصادی طاقت ہے۔ لہٰذا، یہ قدرتی امر ہے کہ وہ اِس زریں موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دے۔


اور اگر چین کا یہی مدعا ہے تو وہ یہ اہم بین الاقوامی کردار کیوں شروع نہیں کرتا، جس کے نتیجے میں اُس کی حکومت کے معترفین اور دوستوں میں اضافہ ہوگا اور وقت آنے پر شمالی ایشیا میں امریکی فوجوں کی موجودگی میں کمی واقع ہوگی۔ کیونکہ، اِس طرح اِس خطے میں سب سے زیادہ سنگین جنگ کا خطرہ ٹل جائے گا۔ اگر چین آج سے شروع کرے تو وہ اُس مکروہ اور مضحکہ خیز بہروپ کا خاتمہ کر سکتا ہے جو اِس وقت شمالی کوریا کی شکل میں موجود ہے، اور اِس طرح وہ ، امریکہ کے ساتھ مل کر جزیرہ نما کوریا کو متحد کرنے کا کارنامہ سرانجام دے سکتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ،
کیا چین کو شمالی کوریا سے محض یہ مطالبہ کرنا چاہیئے کہ وہ مزائل داغنا بند کردے؟ اُن کو محض تعزیرات پر اکتفا نہیں کرنا چاہیئے۔ اُن کو تو شمالی کوریا کی اُن مکروہ فوجی دھمکیوں کے جواب میں اپنی فضائی قوت کا مظاہرہ نہیں کرنا پڑ رہا جیسے امریکہ کو کرنا پڑ رہا ہے۔

تجزیہ نگار کہتی ہیں کہ چینی لیڈروں کو تو بس یہ کرنا ہےکہ اُس کی توانائی کی ترسیل یا خوراک کی فراہمی بند کردی جائے، کیونکہ دونوں چیزوں کا بیشتر حصہ چین ہی فراہم کرتا ہے۔ اگر چینی لیڈر اُس ظالم حکومت کو بدلنا چاہیں جس نے لاکھوں لوگوں کو بیگار کیمپوں میں بند کررکھا ہے تو وہ شمالی کوریا کے ساتھ اپنی آٹھ سو میل لمبی سرحد کھول کر لوگوں کو فرار کا راستہ فراہم کرسکتے ہیں جو شمالی کوریا کے لیے وہی کچھ کرے گی جو دیوارِ برلن کے مسمار ہونے نے مشرقی جرمنی کے لیے کیا تھا۔

بعض چینیوں کو شمالی کوریا کی طرف اپنی پالیسی بدلنے کی ضرورت کا احساس ہوگیا ہے۔

’فنینشل ٹائمز‘ میں کمیونسٹ پارٹی اخبارکے ایک ایڈیٹر، دینگ یو وہن نے تجویز کیا ہے کہ چین کو شمالی کوریا کا ساتھ چھوڑ دینا چاہیئے اور دونوں کوریاؤں کو دوبارہ متحد کرنے کے لیے قدم اٹھانا چاہیئے۔

امی گریشن کے مسئلے پر ’ پٹس برگ ٹربیون ریویو‘ میں کالم نگار ، سکاٹ راس مُسن رقمطراز ہیں کہ امریکی ووٹروں میں سے 68فی صد باور کرتے ہیں کہ جب جائز اور قانونی طور پر امی گریشن یا نقل وطن پر عمل درآمد کیا جائے تو یہ امریکہ کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔ بیشتر ووٹروں نے سالہا سال سے امی گریشن کی پالیس کا خیرمقدم کیا ہے، بلکہ اور امور کے برعکس امی گریشن وہ واحد امر ہے جس پر دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے۔

اگر ایسی بات ہے اور امی گریشن قوم کے لیے اچھی چیز ہے، جس کی حمایت دونوں پارٹیوں میں موجود ہے تو پھر سیاست دان کیوں ایسا فارمولا نہیں دے رہے جو کارگر ثابت ہو۔

کالم نگار کا خیال ہے کہ اس کی جزوی وجہ یہ ہے کہ چاہے امی گریشن کے کوئی بھی قانون کیوں نہ پاس کیے جائیں یہ ماننے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے کہ حکومت سرحدوں کو محفوظ بنانے کی کوششں کرے گی۔ چناچہ، امی گریشن کی جامع اصلاح کے حامیوں میں سے 64فی صد ایسے ہیں جن کا مطالبہ یہ ہے کہ ملک میں غیر قانونی طور پر رہنے والے غیر ملکیوں کے لیے شہریت کی راہ ہمرار کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ سرحدوں کو محفوظ بنایا جائے۔

ہر دس ووٹروں میں سے سات چاہتے ہیں کہ نئے تارکین وطن کو معاشرے میں مدغم کیا جائے اور اُنھیں امریکی کلچر کا حصہ بنایا جائے۔

ظاہر ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُس کلچر میں نئے تارکین وطن کی طرف سے اضافہ ہوا ہے، لیکن اس ملک کی قومی زندگی میں مغربی تہذیب کے آدرشوں کو بنیادی حیثیت حاصل رہی ہے اور اِن میں فرد کی آزادی مساوات اور عوام کی مرضی سے قائم حکومت شامل ہیں۔

راس مسن کہتے ہیں کہ واشنگٹن میں اس قومی سیاسی بحث کو وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ تارکینِ وطن کے اِس ملک میں پہنچنے کے بعد کیا ہوتا ہے اس کا دارومدار اس پر ہوگا کہ اُن کو سرحد عبور کرانے کے لیے جو قانون بنائے جاتے ہیں ووٹر اُنھیں کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔