’جب تک پاکستان اپنی سر زمین پر دہشت گردی کے اڈّوں کی اجازت دیتا رہے گا، تو اُس صورت میں جنگی قواعد کے تحت امریکہ کو اپنے شہریوں کی حفاظت کے لئے ڈرون طیاروں کے استعمال کا ہر حق حاصل ہے‘: اخباری رپورٹ
واشنگٹن —
تحریک طالبان کے امیر حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت پر ’وال سٹریٹ جرنل‘ کے ایک تبصرے میں کہا گیا ہے کہ امریکہ نے اس دہشت گرد کو اپنے دفاع میں ہلاک کیا ہے۔
اخبار یاد دلاتا ہے کہ یکم مئی سنہ 2010 میں نیو یارک شہر کے ٹائم سکوئر کو ایک کاربم کے ذریعے اُڑانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اگر یہ کوشش کامیاب ہو جاتی تو درجنوں بلکہ شائد سینکڑوں بے گُناہ شہری ہلاک اور اپاہج ہو جاتے۔
یہ کارستانی فیصل شہزاد کی تھی جس کو حکیم اللہ محسود نے تربیت دے کر اس مشن پر بھیجا تھا۔ حکیم اللہ محسود طالبان کی پاکستان شاخ کا لیڈر تھا، لیکن اس کا شہزاد کو اس مشن کےلئے بھرتی کرنا ثابت کرتا ہےکہ وہ امریکہ کے لئے ایک خطرہ تھا۔ باور کیا جاتا ہے کہ سنہ 2009 میں افغانستان میں سی آئی اے کے سات ایجنٹوں کی ایک خود کُش بم دہماکے میں ہلاکت کے پیچھے بھی اُسی کا ہاتھ تھا۔ اور جب یہ اعتراض اُٹھایا جاتا ہے کہ ڈرون حملوں کا امریکہ کی سلامتی سے کوئی واسطہ نہیں، تو اس حقیقت کو نہیں بھولنا چاہئے جس کا اطلاق پاکستان کے اس اعتراض پر بھی ہوتا ہے کہ ڈرون حملے اس کی حاکمیت اعلیٰ کی نفی کرتے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ پاکستان جب تک اپنی سرزمین پر دہشت گردی کے اڈّوں کی اجازت دیتا رہے گا، تو اُس صورت میں، جنگی قواعد کے تحت، امریکہ کو اپنے شہریوں کی حفاظت کے لئے ڈرون طیاروں کے استعمال کا ہر حق حاصل ہے۔
پاکستان کے اس دعوے کے بارے میں کہ محسود کی ہلاکت سے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات میں رخنہ پڑ گیا ہے، اخبار کہتا ہے کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے، کیونکہ جب تک طالبان اس گمان میں رہیں گےکہ وُہ جیت رہے ہیں، اُنہیں مذاکرات میں کوئی دلچسپی نہیں ہو سکتی۔ اس میں شُبہ نہیں کہ محسود کی جگہ کوئی نیا طالبان کمانڈر آئے گا جو شائد اتنا اہل نہ ہو اور جسے زیادہ لوگوں کی حمائت حاصل نہ ہو۔
اخبار کہتا ہے کہ محسود کی ہلاکت سے یہ پیغام ملتا ہے کہ اگر آپ کسی امریکی کو ہلاک کرتے ہیں تو پھر وقت آنے پر کوئی نہ کوئی مزائل آپ کا بھی سُراغ لگائے گا۔
اُدھر، ’وال سٹریٹ جرنل‘ کے اسلام آباد کے نمائیندے نے اطلاع دی ہے کہ پاکستانی طالبان نے عہد کیا ہے کہ وہ اپنے امریکی ہلاکت کا انتقام لیں گے جس کے نتیجے میں اسلام آباد اور واشنگٹن کے کشیدہ تعلقات اور دباؤ پڑ رہا ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ محرم کا مہینہ شروع ہونے کے ساتھ کُشت و خوں کا خطرہ اور بھی بڑھ گیا ہے۔ اس مہینے میں شیعہ مسلک کے پیروکار محرم کے جلوس نکالتے ہیں، جو اکثر جنگجؤوں کے حملوں کا نشانہ بنتے ہیں۔
اخبار کے نمائیندے کے بقول، وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کو امن کی تمام کوششوں کے قتل سے تعبیر کیا ہے۔
اخبار نے قائد اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر ظفر جسپال کے حوالے سے بتایا ہے کہ نواز شریف حکومت نے جس برہمی کا اظہار کیا ہے، اُس سے امریکہ دُشمنی کو ہوا لگی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ڈرون حملوں کی مدد سے مجرموں کا صفایا کیا جا رہا ہے تو ہمیں انہیں ہیرو نہیں بنانا چاہئے اور حکومت ایسا تاثّر دے رہی ہے جیسےکوئی تباہی آگئی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ سنہ 2003 سے اب تک پاکستان میں اِن شدّت پسندوں نےاٹھارہ ہزار شہریوں کو اور لگ بھگ ساڑے پانچ ہزار فوجیوں کو ہلاک کیا ہے۔
طالبان کی ایک شاخ جنداللہ نے پشاور کے ایک گرجا گھر میں ستمبر میں دوہری خودکُش بمباری کی ذمہ داری قبول کی تھی اور دہمکی دی تھی کہ مزید ایسے حملے کئے جائیں گے ۔ جنداللہ کے ترجمان، احمد مروت نے کہا تھا کہ پاکستانی فوج اور پاکستان کو نشانہ بنایا جائے گا۔
’و ِچِٹا ایگل‘ اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق، افغان فوج جسےاب میدن جنگ میں امریکی فوج کی امدادحاصل نہیں ہے، طالبان کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہی ہے۔
رپورٹ میں امریکی اور نیٹو عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ افغان فوج پر طالبان نے جو زبردست حملہ ایسے میں کیا تو اُنہیں اُس سے کوئی علاقہ چھیننے میں کامیابی نہیں ہوئی۔ ایسا غیر ملکی توپ خانے کی امداد کے بغیر پہلی بار ہو ا ہے۔۔ البتہ، اس میں فوجیوں، پولیس اور عام شہریوں کا بھاری جانی نُقصان ہوا۔
غیر ملکی فوجوں کے مکمل انخلاء سے تیرہ ماہ قبل یہ صورت حال، بقول امریکی عہدہ داروں کے، اس حقیقت کو اُجاگر کرتی ہے کہ اگلے سال مکمل انخلا کے بعد بھی ایک غیر ملکی فورس کا وہاں موجود رہنا ضروری ہے۔
خیال ہے 2014 ءکے بعد تقریباً دس ہزار امریکی فوجی افغانستان میں موجود رہے گی، بشرطیکہ سیکیورٹی کا ایک معاہدہ طے پاتا ہے، جس میں ان فوجیوں کو افغان عدالتوں سے استثنیٰ حاصل ہوگا۔ اُس صورت میں، نیٹو بھی پانچ ہزار فوجی فراہم کرے گا۔
اخبار ’یو ایس اے ٹوڈے‘ کے مطابق، ہندوستان مریخ کی طرف ایک سیّارچہ خلا میں روانہ کرنے والا ہے، جو اگر وہاں کامیابی سے اُترگیا، تو ہندوستان ایسا کارنامہ سرانجام دینے والا چوتھا ملک ہوگا۔ اب تک اُس سیّارے تک پہنچنے میں صرف سوئت یونین، امریکہ اور یورپ کو کامیابی ہوئی ہے۔
اخبار یاد دلاتا ہے کہ یکم مئی سنہ 2010 میں نیو یارک شہر کے ٹائم سکوئر کو ایک کاربم کے ذریعے اُڑانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اگر یہ کوشش کامیاب ہو جاتی تو درجنوں بلکہ شائد سینکڑوں بے گُناہ شہری ہلاک اور اپاہج ہو جاتے۔
یہ کارستانی فیصل شہزاد کی تھی جس کو حکیم اللہ محسود نے تربیت دے کر اس مشن پر بھیجا تھا۔ حکیم اللہ محسود طالبان کی پاکستان شاخ کا لیڈر تھا، لیکن اس کا شہزاد کو اس مشن کےلئے بھرتی کرنا ثابت کرتا ہےکہ وہ امریکہ کے لئے ایک خطرہ تھا۔ باور کیا جاتا ہے کہ سنہ 2009 میں افغانستان میں سی آئی اے کے سات ایجنٹوں کی ایک خود کُش بم دہماکے میں ہلاکت کے پیچھے بھی اُسی کا ہاتھ تھا۔ اور جب یہ اعتراض اُٹھایا جاتا ہے کہ ڈرون حملوں کا امریکہ کی سلامتی سے کوئی واسطہ نہیں، تو اس حقیقت کو نہیں بھولنا چاہئے جس کا اطلاق پاکستان کے اس اعتراض پر بھی ہوتا ہے کہ ڈرون حملے اس کی حاکمیت اعلیٰ کی نفی کرتے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ پاکستان جب تک اپنی سرزمین پر دہشت گردی کے اڈّوں کی اجازت دیتا رہے گا، تو اُس صورت میں، جنگی قواعد کے تحت، امریکہ کو اپنے شہریوں کی حفاظت کے لئے ڈرون طیاروں کے استعمال کا ہر حق حاصل ہے۔
پاکستان کے اس دعوے کے بارے میں کہ محسود کی ہلاکت سے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات میں رخنہ پڑ گیا ہے، اخبار کہتا ہے کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے، کیونکہ جب تک طالبان اس گمان میں رہیں گےکہ وُہ جیت رہے ہیں، اُنہیں مذاکرات میں کوئی دلچسپی نہیں ہو سکتی۔ اس میں شُبہ نہیں کہ محسود کی جگہ کوئی نیا طالبان کمانڈر آئے گا جو شائد اتنا اہل نہ ہو اور جسے زیادہ لوگوں کی حمائت حاصل نہ ہو۔
اخبار کہتا ہے کہ محسود کی ہلاکت سے یہ پیغام ملتا ہے کہ اگر آپ کسی امریکی کو ہلاک کرتے ہیں تو پھر وقت آنے پر کوئی نہ کوئی مزائل آپ کا بھی سُراغ لگائے گا۔
اُدھر، ’وال سٹریٹ جرنل‘ کے اسلام آباد کے نمائیندے نے اطلاع دی ہے کہ پاکستانی طالبان نے عہد کیا ہے کہ وہ اپنے امریکی ہلاکت کا انتقام لیں گے جس کے نتیجے میں اسلام آباد اور واشنگٹن کے کشیدہ تعلقات اور دباؤ پڑ رہا ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ محرم کا مہینہ شروع ہونے کے ساتھ کُشت و خوں کا خطرہ اور بھی بڑھ گیا ہے۔ اس مہینے میں شیعہ مسلک کے پیروکار محرم کے جلوس نکالتے ہیں، جو اکثر جنگجؤوں کے حملوں کا نشانہ بنتے ہیں۔
اخبار کے نمائیندے کے بقول، وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کو امن کی تمام کوششوں کے قتل سے تعبیر کیا ہے۔
اخبار نے قائد اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر ظفر جسپال کے حوالے سے بتایا ہے کہ نواز شریف حکومت نے جس برہمی کا اظہار کیا ہے، اُس سے امریکہ دُشمنی کو ہوا لگی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ڈرون حملوں کی مدد سے مجرموں کا صفایا کیا جا رہا ہے تو ہمیں انہیں ہیرو نہیں بنانا چاہئے اور حکومت ایسا تاثّر دے رہی ہے جیسےکوئی تباہی آگئی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ سنہ 2003 سے اب تک پاکستان میں اِن شدّت پسندوں نےاٹھارہ ہزار شہریوں کو اور لگ بھگ ساڑے پانچ ہزار فوجیوں کو ہلاک کیا ہے۔
طالبان کی ایک شاخ جنداللہ نے پشاور کے ایک گرجا گھر میں ستمبر میں دوہری خودکُش بمباری کی ذمہ داری قبول کی تھی اور دہمکی دی تھی کہ مزید ایسے حملے کئے جائیں گے ۔ جنداللہ کے ترجمان، احمد مروت نے کہا تھا کہ پاکستانی فوج اور پاکستان کو نشانہ بنایا جائے گا۔
’و ِچِٹا ایگل‘ اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق، افغان فوج جسےاب میدن جنگ میں امریکی فوج کی امدادحاصل نہیں ہے، طالبان کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہی ہے۔
رپورٹ میں امریکی اور نیٹو عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ افغان فوج پر طالبان نے جو زبردست حملہ ایسے میں کیا تو اُنہیں اُس سے کوئی علاقہ چھیننے میں کامیابی نہیں ہوئی۔ ایسا غیر ملکی توپ خانے کی امداد کے بغیر پہلی بار ہو ا ہے۔۔ البتہ، اس میں فوجیوں، پولیس اور عام شہریوں کا بھاری جانی نُقصان ہوا۔
غیر ملکی فوجوں کے مکمل انخلاء سے تیرہ ماہ قبل یہ صورت حال، بقول امریکی عہدہ داروں کے، اس حقیقت کو اُجاگر کرتی ہے کہ اگلے سال مکمل انخلا کے بعد بھی ایک غیر ملکی فورس کا وہاں موجود رہنا ضروری ہے۔
خیال ہے 2014 ءکے بعد تقریباً دس ہزار امریکی فوجی افغانستان میں موجود رہے گی، بشرطیکہ سیکیورٹی کا ایک معاہدہ طے پاتا ہے، جس میں ان فوجیوں کو افغان عدالتوں سے استثنیٰ حاصل ہوگا۔ اُس صورت میں، نیٹو بھی پانچ ہزار فوجی فراہم کرے گا۔
اخبار ’یو ایس اے ٹوڈے‘ کے مطابق، ہندوستان مریخ کی طرف ایک سیّارچہ خلا میں روانہ کرنے والا ہے، جو اگر وہاں کامیابی سے اُترگیا، تو ہندوستان ایسا کارنامہ سرانجام دینے والا چوتھا ملک ہوگا۔ اب تک اُس سیّارے تک پہنچنے میں صرف سوئت یونین، امریکہ اور یورپ کو کامیابی ہوئی ہے۔