امریکی اخبارات سے: کیری کا دورہٴ مصر

’نیو یارک ٹائمز‘ کی نظر میں یہ دورہ کئی اعتبار سے نا مناسب تھا، جس کا آغاز اُسی روز ہوا جب مرصی کو قتل و غارت کو ہوا دینے کے ایک مقدّمے میں، جس کے پیچھےسیاست کارفرما تھی، عدالت میں پیش کیا گیا
امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے مصر کے دورے پر اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ ایک تو اس دورے کا فیصلہ آخری لمحے میں کیا گیا، اور دوسرے اس کی وجہ سے اس کلیدی اہمیت کےحامل عرب ملک کی طرف اوبامہ انتظامیہ کی پالیسی کے بارے میں غلط فہمیوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ جمہوری طریقے سے منتخب ہونے والے پہلے مصری صدر محمد مرصی کا جولائی میں تختہ اُلٹے جانے کے بعد یہ کسی عالی مرتبت امریکی عہدہ دار کا پہلا دورہ تھا، جس سے یہ تاثّر پیدا ہوگیا کہ جیسے اُن طاقت ور فوجی جنرلوں کے ساتھ گٹھ جوڑ ہو رہا تھا جنہوں نے یہ فوجی انقلاب برپا کیا، اور جو اب ملک کا کاروبار چلارہے ہیں۔

اخبار کی نظر میں یہ دورہ کئی اعتبار سے نا مناسب تھا۔ جس کا آغاز اُسی روز ہوا جب مرصی کو قتل و غارت کو ہوا دینے کے ایک مقدّمے میں، جس کے پیچھےسیاست کارفرما تھی، عدالت میں پیش کیا گیا، جنہیں اپنے اخوان المسلمین کے ساتھیوں کے ساتھ تشدّد بھڑکانے کے الزام میں نظر بند رکھا گیا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ قطع نظر اس کے کہ الزامات میں کتنی صداقت ہے ، اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ یہ فوج کی اُس کوشش کا حصّہ ہے جس کا مقصد اخوان المسلمین اور دوسرے مخالفین کو کُچلنا ہے۔

اخبار کو مصری مرد آہن جنرل عبدالفتح السسی کے ساتھ ملاقات کے دوران مسٹر کیری کے لہجے اور نفس مضمون پر بھی اعتراض ہے، جس دوران مسٹر مرصی کا کوئی ذکر نہ آیا اور پچھلے ماہ مصر کو ہتھیاروں کی رسد منسوخ کرکےاور 26 کروڑ ڈالر کی اقتصادی امداد روک کر صدر اوباما جو پیغام دینا چاہتے تھے، وُہ بھی غتربُود ہوگیا، جب مسٹر کیری نے کہا کہ یہ سزا نہیں ہے۔ اور ایسا لگ رہا ہے کہ انہوں نے ریفرنڈم کرانے اور ایک ترمیم شُدہ آئین کے بارے میں مصری جنرلوں کی بات مان لی ہے، حالانکہ، بقول اخبار کے، آئین پر ابھی کام ہورہا ہے اور اخوان المسلمین کے خلاف جو کریک ڈاؤن جاری ہے وہ جمہوری آئین کے لئے اچھا شگون نہیں ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ امریکہ اور مصر کے بہت سے مشترک مفادات ہیں، جن میں اسرائیل کی سلامتی، نہر سویز میں جہازوں کی آزادانہ آمد و رفت اور دہشت گردی کے خلاف تعاون، اور یہ ضروی ہے کہ وہ مل جل کر کام کریں۔ اور انہیں اپنے اختلافات کے بارے میں کوئی ابہام نہیں ہونا چاہئے ، خصوصاً اس پر کہ لفظ جمہوریت سے کیا مراد ہے۔


اسی موضوع پر ’واشنگٹن پوسٹ‘ ایک ادارئے میں پانچ ماہ قبل ایک فوجی بغاوت میں اقتدار سے محروم کئے جانے والے منتخب مصری صدر محمد مرصی کو پیر کے روز قتل و غارت کو ہوا دینے کے الزامات میں عدالت میں پیش کیاگیا۔

اخبار کہتا ہے کہ وہ چار ماہ سے نظر بند ہیں، اور انہیں اپنے وکیلوں سے صلاح مشورہ کرنے کی اجازت نہیں۔ اخوان المسلمین کے ایک تو دو ہزار اعلیٰ اور ادنیٰ لیڈر اور ان کے علاوہ اس تنظیم کے چھ ہزار ارکان بھی جیل کاٹ رہے ہیں، سینکڑوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں خفیہ مقدّمے چل رہے ہیں۔


اخبار کہتا ہے کہ یہ سمجھنا کہ مصر جمہوریت کی جانب پیشقدمی کر رہا ہے، اس حقیقت کو نظر انداز کرنا ہے کہ اس ملک کے منتخب لیڈر اور ہزاروں پیروکاروں کو، جو سب سیاسی نظربند ہیں، ایسے مقدّمے بُھگتنے پڑ رہے ہیں، جو صریحاً بے انصافی پر مبنی ہیں۔ حزب اختلاف کے میڈیا کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے، اور جو باقی بچا ہے، اس پر کڑا کنٹرول ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ محمد البرادی اور ایمن نُور جیسے لبرل اور سیکیولر سیاست دانوں کو ملک چھوڑ کر جانا پڑا ہے۔

پچھلے ہفتے پاکستان کے قبائیلی علاقے پر جو ڈرون حملہ ہوا تھااس پر ’شکاگو ٹربیون‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ اس میں پبلک کے اول نمبر دُشمن اور پاکستانی طالبان کے مذموم لیڈر حکیم اللہ محسود کا قلع قمع کر دیا گیا تھا۔

اخبار نے یاد دلایا ہے کہ محسود ایک دہشت گرد ٹولے کا سربراہ تھا، جس نے خودکُش بمباروں کے ذریعے ہزاروں پاکستانی شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔

محسود ٹائم سکوائرمیں سنہ 2010 کے ناکام کار بم دہماکے اور افغانستان میں سی آئی اے کے سات کارندوں کی ہلاکت میں بھی ملوث تھا۔ اور ایف بی آئی نے اس کے سر کی قیمت پچاس لاکھ ڈالر مقرر کی تھی۔

پاکستانی وزیر داخلہ کے اس بیان پر کہ ڈرون حملے سے امریکہ نے طالبان کے ساتھ حکومت کے ہونے والے مذاکرات کو سیبوتاژ کیا ہے اور یہ کہ محسود کی ہلاکت امن کی مساعی کا قتل ہے، اخبار کا سوال ہے کہ اس سے کس امن کو دھچکہ پہنچا ہے۔

اخبار یاد دلاتا ہے کہ سنہ 2006 سے پاکستانی لیڈروں نے وزیرستان کے دھماکہ خیز علاقے میں بہت مرتبہ ایسے امن معاہدوں کا اعلان کیا ہے، اور یہ کوششیں باربار ناکام ہوتی رہی ہیں۔ اور ہر مرتبہ ان باغیوں کو پھر سے مجتمع ہونے، نئی ہتھیاربندی کرنے اور اپنی صفوں کو پھیلانے کا موقع ملا ہے۔