امریکی اخبارات سے: افغانستان، کچھ امریکی فوج کی موجودگی

فائل

مسٹر کرزئی نے اب تک امریکہ کے ساتھ کسی ایسے دو طرفہ معاہدے پر دستخط کرنے سے گُریز کیا ہے جس میں یہ بات شامل ہو کہ سنہ 2014 کے بعد غیر ملکی فوجیں کن شرائط پر افغانستان میں موجود رہیں گی
وال سٹریٹ جرنل‘ کی رپورٹ ہے کہ امریکی محکمہٴدفاع پینٹگن نے افغانستان میں دس ہزار امریکی فوجی پیچھے چھوڑنے کی تجویز رکھی ہے۔ اخبار نے اس محکمے کے سینیئر کار پردازوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ انہوں نے وہائٹ ہاؤس کو یہ تجویز بھیجی ہے، جس کے مطابق، اس سال کے خاتمے کے بعد، افغانستان میں دس ہزار امریکی فوج موجود رہنی چاہئے۔ اور پھر، صدر اوبامہ کی میعاد صدارت ختم ہونے تک امریکہ کی تمام فوج وہاں سے ہٹا لینی چاہئے۔ اس سے پہلے، اس فوج کا اس ملک میں جو دورانیہ تجویز کیا گیا تھا، یہ اُس سے کہیں کم ہے۔

صدر اوبامہ سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر وہ اس نئی تجویز کو ردّ کرتے ہیں، تو پھر اُس صورت میں اُنہیں چاہئے کہ سال ختم ہونے تک سارا فوجی عملہ افغانستان سے ہٹا لیا جائے۔

اس نئی تجویز کے لئے ضروری ہے کہ افغان صدر حامد کرزئی بھی اسے قبول کریں۔

مسٹر کرزئی نے اب تک امریکہ کے ساتھ کسی ایسے دو طرفہ معاہدے پر دستخط کرنے سے گُریز کیا ہے جس میں یہ بات شامل ہو کہ سنہ 2014 کے بعد غیر ملکی فوجیں کن شرائط پر افغانستان میں موجود رہیں گی۔


اور، ’وال سٹریٹ جرنل‘ کی رپورٹ کے مطابق، امریکی محکمہٴخارجہ اور انٹلی جنس ادارے دس ہزار فوج افغانستان میں پیچھےچھوڑنے کی حمائت کرتے ہیں، جب کہ وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ مسٹر اوبامہ نے ابھی یہ طے نہیں کیا ہے کہ بالآخر افغانستان میں کتنی تعداد میں امریکی فوج موجود رہنی چاہئے۔

اخبار نے قومی سلامتی کونسل کی خاتون ترجمان کیٹ لِن ہے ڈن کے حوالے سے بتایا ہے کہ اگر ہم فوری طور سے سلامتی کے ایک دو طرفہ معاہدے پر متّفق نہیں ہو سکے، تو پھر اُس صورت میں ہمیں سنہ 2014 کے بعد کے دور کی منصوبہ بندی کرنی ہوگی، جس میں افغانستان میں کوئی امریکی یا نیٹو فوج موجود نہیں رہے گی۔

لیکن، یہ وُہ مستقبل نہیں ہے جو ہم چاہتے ہیں، اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ افغانستان کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔ اس وقت، افغانستان میں ساڑھے37 ہزار فوجی متعیّن ہیں، جن میں سے امریکہ اگلے ماہ پانچ ہزار ہٹالے گا۔ یہ صدر اوبامہ کے اس منصوبے کے مطابق ہو رہا ہے جس کا اعلان انہوں نے پچھلے سال قوم کے نام اپنے پیغام میں کیا تھا، اور کہا تھا کہ اس وقت جو 64 ہزار امریکی فوجی افغانستان میں موجود ہیں، اُن میں سے آدھے ہٹائے جا رہے ہیں۔


’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ پینٹگن کی طرف سے وہائٹ ہاؤس کو یہ تجویز ایسے وقت بھیجی گئی ہے، جب بعض ارکان کانگرس نے اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ عراق میں القاعدہ کے ارکان پھر سر اُٹھا رہے ہیں۔ ری پبلکن سینیٹر، جان مکین اور لنڈسی گراہم نے ان شواہد کی بنیاد پر یہ موٴقف اختیار کیا ہے کہ امریکی فوجوں کو ابھی عراق میں موجود رہنا چاہئے تھا۔

’لاس انجلس ٹائمز‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، جہاں امریکہ میں نصف صدی کے عرصے میں سگرٹ نوشی میں بھاری کمی ہوئی ہے، وہاں باقیماندہ دنیا میں اس کے استعمال میں بے تحاشہ اضافہ ہو گیا ہے۔ امریکہ میں 1964ءمیں سگریٹ پینے والوں کا تناسب پچاس فی صد تھا، جو گر کر 18 فیصد ہوگیا ہے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ ہوا ہے کہ 80 لاکھ انسانی جانیں موت کے مُنہ میں جانے سے بچالی گئی ہیں۔ دوسرے ترقی یافتہ ملکوں میں بھی تمباکو نوشی میں اسی طرح کی ڈرامائی کمی واقع ہو ئی ہے۔ بلکہ، سٹی گروپ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، اگلے تیس یا پچاس سال میں دولتمند ملکوں میں تمباکو نوشی عملی طور پر ختم ہو جائے گی۔ لیکن، اس کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ غریب ملکوں میں سگریٹوں کی صنعت میں بے تحاشہ وسعت آئی ہے، اور دنیا بھر میں تمباکو کا نشہ کرنے والوں کی تعداد ایک ارب تک پہنچ گئی ہے۔ اور اگر کوئی قدم نہ اُٹھایا گیا، تو صحت کے عالمی ادارے کا تخمینہ ہے کہ رواں صدی کے دوران، تمباکو ایک ارب انسانوں کی جان لے گا، جن میں سے اسی فیصد کا تعلق ترقی پذیر ملکوں سے ہوگا۔

طبّی مقاصد سے چرس کے استعمال پر، نیو یارک کا اخبار ’نُیوز ڈے‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ سال کے آغاز پر، اس ریاست کے گورنر اینڈرُیو کوو مو نے اعلان کیا ہے کہ ریاست بھر میں بیس اسپتالوں کو اجازت دی جا رہی ہے کہ وہ ایسے شدید بیماروں کو چرس فراہم کریں، جنہیں ریاست کے زیر اہتمام ایک تحقیقی پروگرام میں شامل کیا جائے گا۔ اور یہ دیکھاجائے گا کہ اُن میں سے کون سے بیماروں کو اور کن حالات میں چرس سے فائدہ ہوتا ہے۔

اخبار اس تحقیق کو درست سمت ایک معمولی سا قدم قرار دیتے ہوئے، کہتا ہے کہ اس کی بدولت، ان شدید بیماروں کو اس تک رسائی سے محروم نہیں کیا جائے گا جن کی شدید تکلیف میں اس سے افاقہ ہو جاتا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ اگر نیو یارک بھی اُن بیس ریاستوں میں شامل ہو جائے جہاں طبی استعمال کے لئے چرس دستیاب کی جاتی ہے، تو اس کی رسد لائسنس والے کاشت کاروں سے آئے گی۔