امریکی اخبارات سے: کرزئی کی دغا بازیاں

فائل

ایک اخباری رپورٹ کے مطابق، مسٹر کرزئی عرصہٴدراز سے امریکہ سے نالاں ہیں۔ اُن کی حکومت نے پچھلے ہفتے ایک اشتعال انگیز اور گمراہ کن دستاویز کی بھی تشہیر کی، جس میں امریکی اور نیٹو فوجوں پر قتل و غارت کا الزام لگایا گیا
صدر کرزئی کی دغا بازیاں کے عنوان سے، ’نیو یارک ٹائمز‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ ایسا لگ رہا ہے کہ افغان صدر حامد کرزئی نے اب فیصلہ کر لیا ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلّقات بگاڑنے سے کوئی نُقصان نہیں ہوگا، بلکہ شائد کوئی فائدہ ہی ہوگا۔ اخبار کہتا ہے ممکن ہے اس سے اُن کو ذاتی فائدہ پہنچتا ہو۔ لیکن، عرصہٴدراز سے، مصیبتوں میں گھرے ہوئے اُن کے ملک کو اس سے کُچھ حاصل نہ ہوگا۔

اخبار کہتا ہے کہ مسٹر کرزئی عرصہٴدراز سے امریکہ سے نالاں ہیں۔ اُن کی حکومت نے پچھلے ہفتے ایک اشتعال انگیز اور گمراہ کن دستاویز کی بھی تشہیر کی، جس میں امریکی اور نیٹو فوجوں پر قتل و غارت کا الزام لگاتے ہوئے کہا گیا تھا کہ 15 جنوری کو ان کے طیاروں کی بمباری سے شہریوں کی ہلاکت سمیت، کافی تباہی ہوئی تھی۔ اور کم و بیش یہی باتیں طالبان کی ویب سائٹ پر بھی دُہرائی گئی تھیں۔ اور اِن میں دو ایسی تصویریں شامل کی گئی تھیں جو کم از کم تین سال پُرانی تھیں۔

اِسی طرح، اس واقعہ میں بارہ یا سترہ شہریوں کی ہلاکت کا بھی کا جو دعویٰ کیا گیا ہے اس پر اتحادی فوجوں کا کہنا ہے کہ دو احاطوں سے طالبان زبر دست گولہ باری کر رہے تھے۔ ان کو تباہ کیا گیا۔ لیکن، اُن میں صرف دو بچے ہلاک ہوئے تھے۔

اخبار نے اقوام متحدہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس بارہ سالہ جنگ میں جتنے لوگ ہلاک ہوئے ہیں، ان میں سے سب سے زیادہ طالبان کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔ اور اس امر سے ایمان داری کے ساتھ نمٹنے کی بجائے اسے امریکہ کو بدنام کرنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ابھی امریکہ کے احتجاج کے باوجود، مسٹر کرزئی نے37 ایسے قیدی رہا کر دئے ہیں، جنہیں اتّحادی فوجیں خطرناک باغی قرار دے چُکی ہیں۔

اس کے علاوہ، مسٹر کرزئی سیکیورٹی کے ایک معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر رہے ہیں، جس کے تحت، اس سال کے اواخر تک نیٹو فوجوں کے انخلاٴ کے بعد دس ہزار امریکی فو ج افغاستان میں موجود رہے گی۔

اخبار کہتا ہے کہ بعض افغان مسٹر کرزئی کی سازشوں اور تباہ کُن کرتوتوں کی مخالفت کر رہے ہیں۔ لیکن، وہ کافی نہیں ہیں۔ اور جو امیدوار ان کا منصب سنبھالنے کے لئے انتخاب لڑ رہے ہیں، اُن پر ووٹروں کی طرف سے یہ ذمّہ داری عائد ہوتی ہے کہ وُہ انتظامی کارکردگی کو بہتر بنائیں اور امریکہ اور اُس کے اتّحادیوں کے ساتھ سُود مند رویّہ روا رکھیں، جنہوں نے افغانستان کی معیشت کو سہارا دینے کے لئے اربوں ڈالر لگائے ہیں، اور جن سے آنے والے برسوں کے دوران اور امداد کے لئے کہا جائے گا۔

’واشنگٹن پوسٹ‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، اہانت رسول کا جو قانون پاکستان میں مروّج ہے، وُہ اسلامی انتہاپسندوں کے لئے ایک زبردست ہتھیار بن گیا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ اگرچہ پاکستان میں اس قانون کے تحت ابھی کسی بھی شخص کو تختہٴدار پر نہیں چڑھایا گیا ہے، لیکن خدائی خدمت گار طبقہ اسے اقلیّتی فرقے سے تعلّق رکھنے والے افراد کو پھانسنے یا پھر اُنہیں جان سے مار دینے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اور، اُنہوں نے خوف کی ایسی فضاٴ قائم کرلی ہے کہ دہشت زدہ جج قید خانوں کے اندر عدالت لگانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ اور گواہوں پر اتنا خوف طاری ہے کہ وُہ کسی ملزم کے حق میں گواہی دینے سے ڈرتے ہیں۔

رپورٹ میں پاکستان کے حقوق انسانی کے لئےلڑنے والی ایک مقتدر شخصیت، آئی اے رحمان کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اہانت رسول کے فیصلہ طلب مقدّموں میں برابر اضافہ ہو رہا ہے، انتہا پسند تنظیمیں مظاہرے کرتی ہیں اور نعرے بُلند کرتی ہیں، تو ججوں پر خوف طاری ہوجاتا ہے۔ یہ لوگ ہمہ وقت ایجی ٹیشن کرتے رہتے ہیں، منافرت پھیلاتے ہیں اور حکومت کُچھ بھی نہیں کرتی۔

ایک کے بعد دوسری حکومت آتی ہے اور ناکام ہوجاتی ہے۔ نیویارک میں قائم، حقوق انسانی کی تنظیم نے اپنی سنہ 2014 کی رپورٹ میں پاکستان کے اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کے ریکارڈ پر کڑی تنقید کرتے ہوئے، کہا ہے کہ ملک میں اہانت کے قانون کا غلط استعمال بڑھ گیا ہے او راِسے ذاتی عداوت کی بناء پر مذہبی اقلّیتوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ اہانت کا یہ قانون پاکستان بننے سے پہلے کا ہے۔ لیکن، 1980 ء کی دہائی میں ملٹری ڈکٹیٹر، جنرل ضیا الحق نے اس میں ترمیم کرکے اس میں ایک تو پھانسی کی سزا کا اضافہ کیا اور دوسرے، اسلام کی توہین کی خاص طور پر ممانعت کر دی۔ ویسے، پاکستان اس قسم کے قوانین والا واحد ملک نہیں ہے۔ توہینِ مذہب کے لئے 30 ممالک میں سزاؤوں کے قانون موجود ہیں، ان میں پولینڈ اور یونان جیسے عیسائیوں کی بھاری اکثریت والے ملک بھی ہیں، انڈونیشیا او ر پاکستان جیسے بھاری مسلمان اکثریت والے ملک بھی ہیں۔

اخبار کہتا ہے کہ پاکستان میں اہانت کے نام پر جس قسم کا تشدد ہوتا ہے، وہ بہت ہی بے دردانہ ہے۔ تین سال قبل، ایک صوبائی گورنر سلمان تاثیر کو اپنے ہی باڈی گارڈ نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا، کیونکہ اس نے اہانت کی ایک عیسائی ملزمہ کا دفاع کیا تھا۔ اسی طرح، ملک کے ایک عیسائی وفاقی وزیر شہباز بھٹّی کو بھی گولی سے اُڑا دیا گیا تھا، کیونکہ اس نے اس قانون میں ترمیم کا مطالبہ کیا تھا۔

’ریسکُیو کرسچنز‘ نامی ادارے کے پاکستانی نمائیندے نے اس شرط پر اس کا نام نہ ظاہر کیا جائے، بتایا کہ متعدد عیسائی اپنی سفری دستاویزوں کا انتظار کر رہے ہیں، تاکہ وہ چوری چھپے پاکستان سے بھاگ سکیں اور باقی جیل میں اپنے مقدّمے کا انتظار کر رہے ہیں یا عسکریت پسندوں سے جان بچاتے پھر رہے ہیں۔