امریکی اخبارات سے: بے نتیجہ جوہری مذاکرات

آخری مذاکرات کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں حتمی تصفیہ نہیں تھا، بلکہ ایک عبوری سمجھوتا تھا جس کی رو سے جوہری صلاحیت تک پہنچنے کے عمل کو کم از کم چھ ماہ تک روکنا تھا: بالٹی مور سن
جنیوا میں ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں مذاکرت کے تازہ ترین دور کی ناکامی پر ’بالٹی مور سن‘ اخبار ایک اداریے میں کہتا ہے کہ باوجودیکہ کوئی سمجھوتا نہیں ہو سکا ہے، اس میں ابھی بھی امید کا پہلو باقی ہے۔

اس سے پہلے کے مذاکرات کی ناکامی کی وجہ یہ تھی کہ سابقہ صدر محمود احمدی نژاد نے جو معاہدہ طے کیا تھا، اُسے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنئی نے مسترد کردیا تھا۔ اب کی بار امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مابین اس بارے میں اتفاق رائے نہ ہوسکا کہ کسی قسم کی شرائط قابلِ قبول ہوں گی، جِس سے اخبار نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ایران کے نسبتاً زیادہ اعتدال پسند صدر حسن روحانی کے ساتھ پیش رفت کا امکان ہے۔ اگرچہ مشکلات ضرور ہیں۔


آخری مذاکرات کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں حتمی تصفیہ نہیں تھا، بلکہ ایک عبوری سمجھوتا تھا جس کی رو سے جوہری صلاحیت تک پہنچنے کے عمل کو کم از کم چھ ماہ تک روکنا تھا۔ اور اس دوران، ایک جامع سفارتی قرارداد تیار کی جانی تھی اور ایران کو یورینئیم کی افزودگی فوری طور پر بند کرنی تھی۔ نئے سنٹری فیوجز کی تعمیر نہ کرنے کا وعدہ کرنا تھا اور اس کے عوض امریکہ کو سمندر پار ملکوں میں ایران کے 50ارب ڈالر کے اثاثوں کو واگزار کرنا تھا۔

ایران کو پہلے اصرار رہا ہے کہ وہ کبھی یورینیئم کی افزودگی سے دست بردار نہیں ہوگا۔ لیکن، اب جو وہ اس کے لیے تیار ہوگیا ہے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بین الاقوامی تعزیرات سے ایران کو سخت نقصان ہورہا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ مسٹر روحانی کے منتخب ہونے کی بڑی وجہ یہی تھی کہ اُنھوں نے اُنھوں نے اقتصادی امور میں پیش رفت کا عہد کیا تھا۔ لیکن، یہ بات بین الاقوامی برادری کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے بغیر ناممکن ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ امریکہ اور ایران کے مابین تعلقات میں بہتری کے محض امکان کی وجہ سے سعودی عرب سمیت مشرق وسطیٰ میں امریکی اتحادیوں میں تشویش پیدا ہوگئی ہے۔ سعودی عرب اور اسرائیل کسی بھی ایسے امکان کو جس میں ایران بم بنانے کا ٹیکنیکل ڈھانچہ برقرار رکھ سکے، اپنے لیے ایک سنگین خطرہ سمجھے گا۔ ایک پلوٹونیئم ری ایکٹر لگ بھگ ایک سال کے اندر کام کرنا شروع کرے گا، اُس صورت میں اُسے حیاتیاتی تباہی لائے بغیر فوجی حملہ کرکے تباہ کرنا ناممکن ہوگا۔

اخبار کہتا ہے کہ ایک سفارتی حل کے لیے وقت ہاتھ سے نکلا جارہا ہے۔ اگر ایران کے جوہری پروگرام پر کوئی معاہدہ ہوجائے، تو اس سے سفارتی تعلقات اور تجارتی اور ثقافتی رشتے بحال ہونے کے لیے راہ ہموار ہوسکتی ہے اور ایران قوموں کی برادری میں دوبارہ شامل ہوسکتا ہے۔

اخبارکہتا ہے کہ نہ تو ایران اور نہ ہی مغربی ممالک اِن سفارت مساعی کی ناکامی کے متحمل ہو سکتے ہیں، کیونکہ اُس صورت میں جو حالات پیدا ہوں گے، وہ تمام فریقوں کے لیے اس سے کہیں زیادہ خراب ہوں گے۔

’لاس انجلس ٹائمز‘ ایک اداریے میں کہتا ہے اگر ایران کے ساتھ اقتصادی تعزیرات میں نرمی کے عوض اُس کی جوہری سرگرمیاں بند کرنے پر عبوری سمجھوتہ ہوتا ہے، چاہے یہ شبہ برقرار ہے کہ آیا ایران اس سمجھوتے پر کاربند رہے گا۔ لیکن، اس کے باوجود امریکہ اور دوسرے ملک ایران کی نئی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے میں حق بجانب ہیں۔

ناقدین کا خیال ہے کہ عبوری سمجھوتے کے تحت شاید ایران کی یورینیئم کی افزودگی مکمل طور پر بند نہ ہوں، جب کہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے بار بار خبردار کیا ہے کہ جوہری بم سے لیس ایران سے اُن کے ملک کو خطرہ ہے اور وہ اس ملک کے خلاف تعزیرات ہٹانے کے سخت خلاف ہیں۔

اخبار کہنا ہے کہ صدر حسن روحانی کی یقین دہانیوں کو من و عن قبول کرنا بھی درست نہیں۔ لیکن، غیر یقینی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ ایسی علامات ہیں کہ شاید ایران اپنے جوہری عزائم سے دست بردار ہوجاتے بشرطیکہ اس کا اقتصادی بائیکاٹ ختم کردیا جائے اور اخبار کی نظر میں اس امکان کی پیروری نہ کرنا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے غیر ذمہ دارانہ حرکت ہوگی۔

جنیوا کے تازہ ترین مذاکراتی دور کی ناکامی پر ’لاس انجلس ٹائمز‘ کے کالم نگار، پال رکٹر کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ فرانس کے وزیر خارجہ، لوراں فے بیس کی طرف سے یہ اعتراض اٹھایا جانا کہ ابتدائی معاہدے کی شرائط تہران کے لیے حد سے زیادہ نرم ہیں۔ بہت سے ملکوں کو اندیشہ ہے کہ باوجودیکہ ایران کا دعویٰ ہے کہ اس کے جوہری پروگرام توانائی اور طبی مقاصد کے لیے ہے، وہ خفیہ طور پر ہتھیار بنانے کی صلاحیت بڑھا رہا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ جنیوا مذاکرات کو رازداری میں جاری رکھنے پر جو غیر رسمی سمجھوتہ طے پایا تھا، مسٹر فے بیس نے اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہ بیان دیا۔

ایرانی اخبارات میں فرانس پر کڑی تنقید ہوئی جب یہ اطلاعات آئیں کہ لوارں فے بیس کے بیان سے جنیوا مذاکرات ناکام ہوگئے۔

سرکاری ’تہران ٹائمز‘ کا کہنا ہے کہ ایرانی تاجروں نے فرانسسی تاجروں کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ایک ایرانی ماہر معاشیات کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ مغرب کے ساتھ جلد یا بدیر تعلقات معمول پر آجائیں گے۔ لیکن، فرانس کو جنیوا کے مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔