’یو ایس اے ٹوڈے‘ کہتا ہے کہ حکومت کا کاروبار بند ہونے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ دونوں پارٹیوں کا طرزِ عمل مساوی طور پر غیر ذمّہ دارانہ تھا۔ بلکہ، اس کی وجہ ری پبلکن پارٹی کی بڑھتی ہوئی انتہا پسندی ہے، جس پر ایسے عناصر کا غلبہ ہوگیا ہے جو قانون سازی میں یرغمال بنانے کے حربے کا استعمال کرتے ہیں
کانگریس کے دونوں ایوانو ں کے درمیان بجٹ پر عدم اتفاق کے بعد، بالآخر منگل کو امریکی حکومت کا کاروبار بند کردیا گیا، ماسوائےمحکمہٴدفاع، ڈاک اور چند اور اہم اداروں کے۔
اِس پر، اخبار ’یو ایس اے ٹوڈے‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ حکومت کا کاروبار بند ہونے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ دونوں پارٹیوں کا طرزِ عمل مساوی طور پر غیر ذمّہ دارانہ تھا۔ بلکہ، اس کی وجہ ری پبلکن پارٹی کی بڑھتی ہوئی انتہا پسندی ہے، جس پر ایسے عناصر کا غلبہ ہوگیا ہے جو قانون سازی میں یرغمال بنانے کےحربے کا استعمال کرتے ہیں۔ جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جو چیز یہ پارٹی انتخابی عمل سے یا عدلیہ کی وساطت سے نہ حاصل کر سکی، اُس کو اس حربے کے ذریعے حاصل کیا جائے۔
اخبار کی رائے یہ ہے کہ ایوان نمائندگاں میں ری پبلکن ارکان ایسے مطالبات پیش کر رہے ہیں جو نہ صرف بے ہُودہ ہوتے ہیں, بلکہ بجٹ کے امُور کے ساتھ بالعموم اُن کا قطعاً کوئی تعلّق ہی نہیں ہوتا۔ چنانچہ، حکومت کا کاروبار جاری رہنے دینے کے لئے اُن کا صدر اوبامہ سے مطالبہ ہوتا ہے کہ وُہ اپنے صحت عامہ کی نگہداشت کے اُس قانون کی قربانی دیں، جس کی بنیاد پر اُنہوں نے سنہ 2008 اور سنہ 2012 کا انتخاب لڑا تھا اور جسے وہ اپنے دور صدارت کا بڑا کارنامہ تصوّر کرتے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ کوئی بھی صدر، چاہے اس کا تعلّق کسی بھی پارٹی سے ہو، اس قسم کی زیادتی برداشت نہیں کر سکتا۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکی سیاسیات میں اس نہج کا آغاز سابق سپیکر نُیوٹ گنگرچ کے دور میں ہوا تھا، جنہوں نے اس محاذ آرائی کی طرح ڈالی تھی اور سنہ 2008 میں براک اوبامہ کے صدر منتخب ہونے کے بعد اس میں مزید تُندی آگئی اور ٹی پارٹی کی تحریک نے جنم لیا۔
چنانچہ، اخبار کہتا ہے کہ اس محاذ آرائی کو ختم کرنے کے لئے ری پبلکن سپیکر جان بینر کے لئے لازمی ہوگا ک وہ ٹی پارٹی کے خلاف ڈٹ جائیں اور ایوان سے ایک ایسے صاف بل پر رائے شماری کرائیں جس میں مسٹر اوبامہ کے صحت عامہ کی نگہداشت کے قانون میں کسی قسم کی ترمیم کا ذکر نہ ہو۔ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے آیا وہ ایسا کرتے ہیں یا نہیں۔ البتہ، یہ کوئی ڈھکی چُھپی بات نہیں کہ اس دوران حکومت کا کاروبار بند رہنے کی وجہ سے جو مشکلات پیدا ہونگی اور معیشت پرجو دباؤ آئے گا، اس کی ذمّہ داری کس پر آئے گی۔
اسی موضوع پر ’وال سٹریٹ جرنل‘ کے ایک تجزئے میں صدر اوبامہ کے اس بار بار کے بیان کی طرف توجُہ دلائی گئی ہے کہ وہ صحت کی نگہداشت سے متعلق قانون میں کسی قسم کی تبدیلی کے روادار نہیں ہونگے۔ چنانچہ، اب یہ کشمکش اُس غیر یقینی مرحلے میں داخل ہوگئی ہےجس میں دونوں فریق ایک دوسرے پر لاکھوں وفاقی ملازمین کو گھر بھیجبنے اور غیر ضروری سرکاری سروسز کو بند کر نے کی الزام تراشی کریں گے۔
اور اگلےچند روز میں نہ صرف پتہ لگے گاکہ حکومت کا کاروبار کب تک بند رہے گا، بلکہ اس کی وجہ سے قوم کے لیڈروں اور خاص طور پرسپیکر بینر کی شہرت کیونکر متاثر ہوگی۔
اسی طرح سے مالیاتی منڈیوں پر اس بُحران کا اثر پڑے گا اورا س ماہ کے وسط میں اس حتمی تاریخ پر بھی جب وفاقی حکومت کے قرض لینےکی حد کا فیصلہ کرنا ہوگا۔
’کرسچن سائینس مانٹر‘ نے ایک روسی اخبار کے حوالے سے بتایا ہے کہ ماسکو کے شری میتی ئے وے ہوائی اڈّے میں 27 ارب ڈالر کی رقم چھپائی گئی ہے، جو سابق ڈکٹیٹر معمر قذافی یا صدام حسین کی ملکیت ہے۔
اخبار یاد دلاتا ہے کہ اس غار نُما ہوائی اڈے میں ایسےتاریک گوشے ہیں کہ موسم گرما میں امریکی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے بھگوڑے ملازم ایڈورڈ سنو ڈن وہاں 38 دن تک دنیا کی نظروں سےچُھپے رہے۔
روسی اخبار کا کہنا ہے کہ یہ رقم چھ سال قبل وہاں پہنچائی گئی تھی اور یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ اسے کہاں اور کس کو پہنچانا ہے۔ اور اُس وقت سے یہ رقم سنگین پہرے میں ایک گودام میں رکھی گئی ہے جب کہ روسی حکّام یہ طے کر رہے ہیں کہ اس کا کیا کرنا چاہئے۔
اخبار کہتا ہے کہ بعض قیاس آرائیوں کے مطابق، حرام کا یہ پیسہ یا تو ان دو ڈکٹیٹروں میں سے کسی ایک کا ہو سکتا ہے، یا چچن باغیوں کا، یا پھر بنکوں کو لوٹنے والےڈاکؤوں کا۔ شیریمیتیے وو کے بین ا لاقوامی ہوائی اڈّے کی طرف سے اس کی تردید کی گئی ہے کہ اس قسم کی رقم لے کر وہاں کوئی طیارہ اترا تھا۔ لیکن، ماسکوسکی کامسولوٹس نامی جس روسی اخبار سے یہ خبر منسوب کی گئی ہے، اس کا کہنا ہے کہ سو سو یورو نوٹوں پرمشتمل اس رقم کا مجموعی وزن دو سو ٹن ہے۔ اور اس کا اندازہ ہے کہ یہ رقم یا تو صدام حسین کی یا پھر معمر قذافی کی اور جسے حفاظت کے خیال سے ماسکو پہنچا دیا گیا تھا۔
اِس پر، اخبار ’یو ایس اے ٹوڈے‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ حکومت کا کاروبار بند ہونے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ دونوں پارٹیوں کا طرزِ عمل مساوی طور پر غیر ذمّہ دارانہ تھا۔ بلکہ، اس کی وجہ ری پبلکن پارٹی کی بڑھتی ہوئی انتہا پسندی ہے، جس پر ایسے عناصر کا غلبہ ہوگیا ہے جو قانون سازی میں یرغمال بنانے کےحربے کا استعمال کرتے ہیں۔ جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جو چیز یہ پارٹی انتخابی عمل سے یا عدلیہ کی وساطت سے نہ حاصل کر سکی، اُس کو اس حربے کے ذریعے حاصل کیا جائے۔
اخبار کی رائے یہ ہے کہ ایوان نمائندگاں میں ری پبلکن ارکان ایسے مطالبات پیش کر رہے ہیں جو نہ صرف بے ہُودہ ہوتے ہیں, بلکہ بجٹ کے امُور کے ساتھ بالعموم اُن کا قطعاً کوئی تعلّق ہی نہیں ہوتا۔ چنانچہ، حکومت کا کاروبار جاری رہنے دینے کے لئے اُن کا صدر اوبامہ سے مطالبہ ہوتا ہے کہ وُہ اپنے صحت عامہ کی نگہداشت کے اُس قانون کی قربانی دیں، جس کی بنیاد پر اُنہوں نے سنہ 2008 اور سنہ 2012 کا انتخاب لڑا تھا اور جسے وہ اپنے دور صدارت کا بڑا کارنامہ تصوّر کرتے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ کوئی بھی صدر، چاہے اس کا تعلّق کسی بھی پارٹی سے ہو، اس قسم کی زیادتی برداشت نہیں کر سکتا۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکی سیاسیات میں اس نہج کا آغاز سابق سپیکر نُیوٹ گنگرچ کے دور میں ہوا تھا، جنہوں نے اس محاذ آرائی کی طرح ڈالی تھی اور سنہ 2008 میں براک اوبامہ کے صدر منتخب ہونے کے بعد اس میں مزید تُندی آگئی اور ٹی پارٹی کی تحریک نے جنم لیا۔
چنانچہ، اخبار کہتا ہے کہ اس محاذ آرائی کو ختم کرنے کے لئے ری پبلکن سپیکر جان بینر کے لئے لازمی ہوگا ک وہ ٹی پارٹی کے خلاف ڈٹ جائیں اور ایوان سے ایک ایسے صاف بل پر رائے شماری کرائیں جس میں مسٹر اوبامہ کے صحت عامہ کی نگہداشت کے قانون میں کسی قسم کی ترمیم کا ذکر نہ ہو۔ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے آیا وہ ایسا کرتے ہیں یا نہیں۔ البتہ، یہ کوئی ڈھکی چُھپی بات نہیں کہ اس دوران حکومت کا کاروبار بند رہنے کی وجہ سے جو مشکلات پیدا ہونگی اور معیشت پرجو دباؤ آئے گا، اس کی ذمّہ داری کس پر آئے گی۔
اسی موضوع پر ’وال سٹریٹ جرنل‘ کے ایک تجزئے میں صدر اوبامہ کے اس بار بار کے بیان کی طرف توجُہ دلائی گئی ہے کہ وہ صحت کی نگہداشت سے متعلق قانون میں کسی قسم کی تبدیلی کے روادار نہیں ہونگے۔ چنانچہ، اب یہ کشمکش اُس غیر یقینی مرحلے میں داخل ہوگئی ہےجس میں دونوں فریق ایک دوسرے پر لاکھوں وفاقی ملازمین کو گھر بھیجبنے اور غیر ضروری سرکاری سروسز کو بند کر نے کی الزام تراشی کریں گے۔
اور اگلےچند روز میں نہ صرف پتہ لگے گاکہ حکومت کا کاروبار کب تک بند رہے گا، بلکہ اس کی وجہ سے قوم کے لیڈروں اور خاص طور پرسپیکر بینر کی شہرت کیونکر متاثر ہوگی۔
اسی طرح سے مالیاتی منڈیوں پر اس بُحران کا اثر پڑے گا اورا س ماہ کے وسط میں اس حتمی تاریخ پر بھی جب وفاقی حکومت کے قرض لینےکی حد کا فیصلہ کرنا ہوگا۔
’کرسچن سائینس مانٹر‘ نے ایک روسی اخبار کے حوالے سے بتایا ہے کہ ماسکو کے شری میتی ئے وے ہوائی اڈّے میں 27 ارب ڈالر کی رقم چھپائی گئی ہے، جو سابق ڈکٹیٹر معمر قذافی یا صدام حسین کی ملکیت ہے۔
اخبار یاد دلاتا ہے کہ اس غار نُما ہوائی اڈے میں ایسےتاریک گوشے ہیں کہ موسم گرما میں امریکی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے بھگوڑے ملازم ایڈورڈ سنو ڈن وہاں 38 دن تک دنیا کی نظروں سےچُھپے رہے۔
روسی اخبار کا کہنا ہے کہ یہ رقم چھ سال قبل وہاں پہنچائی گئی تھی اور یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ اسے کہاں اور کس کو پہنچانا ہے۔ اور اُس وقت سے یہ رقم سنگین پہرے میں ایک گودام میں رکھی گئی ہے جب کہ روسی حکّام یہ طے کر رہے ہیں کہ اس کا کیا کرنا چاہئے۔
اخبار کہتا ہے کہ بعض قیاس آرائیوں کے مطابق، حرام کا یہ پیسہ یا تو ان دو ڈکٹیٹروں میں سے کسی ایک کا ہو سکتا ہے، یا چچن باغیوں کا، یا پھر بنکوں کو لوٹنے والےڈاکؤوں کا۔ شیریمیتیے وو کے بین ا لاقوامی ہوائی اڈّے کی طرف سے اس کی تردید کی گئی ہے کہ اس قسم کی رقم لے کر وہاں کوئی طیارہ اترا تھا۔ لیکن، ماسکوسکی کامسولوٹس نامی جس روسی اخبار سے یہ خبر منسوب کی گئی ہے، اس کا کہنا ہے کہ سو سو یورو نوٹوں پرمشتمل اس رقم کا مجموعی وزن دو سو ٹن ہے۔ اور اس کا اندازہ ہے کہ یہ رقم یا تو صدام حسین کی یا پھر معمر قذافی کی اور جسے حفاظت کے خیال سے ماسکو پہنچا دیا گیا تھا۔