امریکی اخبارات سے: شاویز کی وفات

’واشنگٹن پوسٹ‘کہتا ہے کہ اگرچہ شاویز نے ایران کےساتھ اتّحاد قائم کرکے امریکہ کو ناراض کیا، انہوں نے اپنے بائیں بازُو کے نظرئے اور اربوں ڈالر والی سفارت کاری کی بدولت متعدد ملکوں سے تعلقات قائم کر لئے، جس سے ونیزویلا اور اس کی ڈگمگاتی سیاست کا بہت سی معیشتوں پر اثرپڑا
وینیزویلا کے متنازعہ صدر ہیوگو شاویز کی سرطان کی طویل علالت کے بعد وفات سے پیدا شدہ صورت حال پر ’واشنگٹن پوسٹ‘ کہتا ہے کہ ایسے میں جب شاویز کے قریبی اتّحادی اُن کو الوداع کہنے کے لئے کاراکاس پہنچ رہے ہیں، اُس خطے کی حکومتیں اس پر غور کر رہی ہیں کہ اُن کی وفات کا وینیزویلا سے ماورا کیا اثر ہو سکتا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ اگرچہ شاویز نے ایران کے ساتھ اتّحاد قائم کرکے امریکہ کو ناراض کر دیا، انہوں نے اپنے بائیں بازُو کے نظرئے اور اربوں ڈالر والی سفارت کاری کی بدولت متعدد ملکوں سے تعلقات قائم کرلئے، جس سے ونیزویلا اور اس کی ڈگمگاتی سیاست کا بہت سی معیشتوں پر اثر پڑا۔ انہوں نے خاص طور پر کیوبا سے نہائت قریبی رشتے قائم کئے اور اُسے روازانہ ایک لاکھ بیرل تیل رعائتی قیمت پر فراہم کرتے رہے۔

اخبار کہتا ہےکہ شاویز لاطینی امریکہ کے بائیں بازو کے اُن لیڈروں میں اوّلین حیثیت رکھتے تھے جو سرد جنگ کے بعد کے دور میں انتخاب جیت کر عہدے پر قائم رہنے میں کامیاب ہوئے اور اب ایکویڈور کے رافا ئل کوریا ، بلیویا کے اے وو مورالیز اور
ارجنٹینا کی کرسٹینا ڈی کرچ نر جیسی شخصیتوں کا کہنا ہے کہ وُہ شاویز کے علاقائی ادغام کے مقاصد کے حصول کے لئے کا م کرتے رہیں گے۔

وینیزویلا کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ نئے انتخابات ایک ماہ کے اندر ہونگے،کوئی تایخ نہیں دی گئی ہے اور ’واشنگٹن پو سٹ‘ کہتا ہے کہ ایسی قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ نائب صدر مڈُورو جس قدر جلد ممکن ہو انتخابات کرنا چاہیں گے، تاکہ شاویز کی دو سال تک سرطان بیماری سے عوام میں جو اُن کے لئے جو جذباتی لگاؤ پیدا ہوا ہے اس سے فائدہ اُٹھایا جائے۔

’بالٹی مور سن‘ کہتا ہے کہ صدر اوبامہ کو اپنے دوسری میعاد صدارت کے دوران جن بین الاقوامی مسائیل سے واسطہ پڑے گا ان میں سے بیشتر بظاہر بہت مشکل ہونگے ۔ لیکن، اخبار کا خیال ہے کہ ایک مسئلہ جس میں حقیقی پیشرفت نہ صرف ممکن ہے بلکہ اغلب بھی ، وُہ ہے کیوبا کا مسئلہ ، بشرطیکہ صدر اوبامہ اور اُن کے نئے وزیر خارجہ جان کیری اس مسئلے کو اپنی خارجہ پالیسی میں ترجیحی درجہ دینے کے لئے تیا ر ہوں۔

امریکہ کے ساحل سے صرف نوے میل کی دوری پر کیوبا کا چھوٹا مُلک واقع ہے جس سے اخبار کی نظر میں امریکہ کو نہ تو کوئی اقتصادی خطرہ ہے اور نا ہی کوئی فوجی خطرہ۔ لیکن، اس سے اس تلخ حقیقت کی یاد دہانی ہوتی ہے کہ 50 سال سے زیادہ عرصے سے ڈیموکریٹک اور ریپبلکن حکومتوں کو جمہوری تبدیلی لانے کی اعلانیہ پالیسی کے مقصدمیں کامیابی نہیں ہوئی ہے اور امریکہ کی پالیسی اس نصف کرّہٗ ارض میں اُس کے بہت سے دوست ممالک کے لئےتلخی کا باعث بنی ہے، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ کیوبا کو باقی دُنیا سے کٹ کر رکھنے کی اس پالیسی کا اُلٹا اثر ہوا ہے۔


اور امریکی محکمہٴ خارجہ کو یہ بات جتا دی گئی ہے کہ اس نصف کرّہٴ ارض میں کبھی بھی ایک اور سربراہ اجلاس منعقد کرنا ممکن نہ ہوگا ، اگر اُس میں کُیوبا کو شامل نہ کیا گیا۔

اخبار نے وزیر خارجہ جان کیری کو یا د دلایا ہے کہ اُنہوں نے کلنٹن دور میں ویت نام کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھاجو فوجی قیدیوں اور جنگ میں لاپتہ ہونے والے فوجیوں کے مسئلے کی وجہ سے کیوبا کے ساتھ تعلقات کے مقابلے میں کہیں زیادہ پیچیدہ تھا۔

اخبار کہتا ہے کہ کیوبا کے مسئلے کے منظر نامے میں ایک تغیُّر آ رہا ہے۔فلوریڈا کیوبائی امریکیوں میں سے تقریباً نصف نے انتخابات میں صدر اوبامہ کو ووٹ دئے تھے ایک امید افزا اطلاع یہ ہے کہ امریکی محکمہٴ خارجہ کیوبا کو دہشت گردی کی سر پرستی کرنے والے ملکوں کی فہرست سے نکالنے پر غور کر رہا ہے۔

اخبار نےواشنگٹن میں کیوبا کے نمائیدے ہوزے کبا ناس کے اس بیان کی طرف بھی توجّہ دلائی ہے کہ ان کا ملک امریکہ کے ساتھ توانائی کی پیداوار میں تعاون کر سکتا ہے جس طرح وہ دوسرے ملکوں کی کمپنیوں کے ساتھ اس وقت کر رہا ہے۔ ان مشترکہ دلچسپی کے امُور پر امریکہ پہلے ہی کیوبا والوں کے ساتھ غیر رسمی رابطے قائم کر چُکا ہے۔اور اخبار چاہتا ہے کہ وزیر خارجہ کیری ایسے انتظامات کو باقاعدہ قائم کرنے میں پہل کریں جو دونوں ملکوں کے مفادات میں ہوں۔