'نیو یارک ٹائمز' نے گوانتانامو کے فوجی قید خانے کے کوائف پر ایک تفصیلی رپورٹ چھاپی ہے۔
'نیو یارک ٹائمز' نے گوانتانامو کے فوجی قید خانے کے کوائف پر ایک تفصیلی رپورٹ چھاپی ہے جہاں 166 افراد دہشت گردی کے الزامات کے تحت زیر حراست ہیں اور جہاں بقول اخبار کئی مایوس قیدی بغاوت پر اُتر آئے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ فوجی عہدے دار اور قیدیوں کے وکلا، دونوں اس خلفشار کی وجوہات کے بارے میں متفق ہیں۔
'وہائٹ ہاؤس' میں پہنچنے کے ساتھ ہی مسٹر اوباما کی اوّلین ترجیح تھی گوانتانامو کے قید خانے کو بند کرنا، اور قیدیوں کو امریکہ کی سرزمیں پر موجود کسی مناسب جیل میں منتقل کرنا۔ لیکن کانگریس میں مخالفت کی وجہ سے اس تجویز کو معرضٕ التواء میں ڈال دیا گیا۔
قیدیوں تک جب یہ خبر پہنچی تو اُنہیں سخت مایوسی ہوئی۔ وُہ اس قید خانے کے بند ہو جانے کے بارے میں بُہت پُر امّید تھے۔ ان کی ناامیدی میں اور زیادہ اضافہ ہو گیا جب مسٹر اوباما نےجنوری 2011ء میں ایک قانون پر دستخط کیے جس کی رو سے قیدیوں کے تبادلے پر روک لگا دی گئی۔
وہاں کے نصف سے زیادہ قیدیوں کو کسی دوسرے ملک منتقل کیا جانا تھا۔ اخبار یاد دلاتا ہے کہ صدر بُش کے دور میں وہاں قیدیوں کی تعداد 779 تھی جن میں سے مسٹر اوباما کے آنے تک 240 رہ گئے تھے۔ اس وقت وہاں 166 قیدی ہیں جن میں سے بقول اخبار کے کئی درجن خطرناک ہیں جن کو رہا نہیں کیا جاسکتا لیکن جن پر مقدمہ چلانا بھی ناممکن ہے۔
ریاست ٹیکسس کے شہر ڈلس میں سابق صدر جارج ڈبلیو بُش کی لائبریری کی افتتاحی تقریب کے مہمانوں میں موجودہ صدر براک اوباما بھی شامل تھے۔
اس موقع کی مناسبت سے 'واشنگٹن ایگزیمینر' اخبار کے وہائٹ ہاؤس کے نامہ نگار برائن ہُیوز ایک کالم میں رقم طراز ہیں کہ مسٹر اوباما نے وہائٹ کے حصول کے لیے جارج بُش کی پالیسیوں کی مخالفت کی راہ اختیار کی تھی۔ اپنی سیاسی زندگی کے آغاز ہی میں اُنہوں نے عراق کی جنگ اور دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے خلاف آواز بلند کی تھی، اور اُنہوں نے ری پبلکنوں پر الزام لگایا تھا کہ اُنہوں نے سیکیورٹی کےنام پر امریکی اقدار کو قربان کردیا ہے۔ اور متوسّط طبقے کے مقابلے میں صاحب ثروت طبقے کو تحفظ فراہم کر کے امریکی معیشت کو تنزُّل کی راہ پر ڈال دیا ہے۔
لیکن بقول نامہ نگار کے مسٹر اوباما کی دوسری میعاد صدارت کے چند ہی ماہ بعد تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ وہ اور اُن کے ری پبلکن پیش رو کی پالیسوں کے درمیان فرق دُھندلا ہوتا جا رہا ہے۔
خاص طور پر قومی سلامتی کے امُور میں جن میں دونوں لیڈروں کی پالیسیوں میں کوئی بڑا فرق نہیں۔ پھر مسٹر اوباما نے ڈرون طیاروں کے بارے میں نہ صرف بش کے پروگرام کو اپنایا بلکہ اُس کو وسعت دی، اور پاکستان پر ڈرون حملوں کی بوچھاڑ کردی۔ یہی کُچھ گوانتانامو کے قید خانے میں بھی ہو رہا ہے جہاں دہشت گردی کے مُلزم غیر معیّنہ عرصے کے لیے بند ہیں، دونوں صدارتوں کے درمیان ان مماثلتوں کے ساتھ مضمون نگار نے اے بی سی ٹیلیوژن کے رائے عامہ کے اس جائزے کی طرف توجُہ دلائی ہے، جس کے مطابق دونوں لیڈروں کی عوام میں مقبولیت کی شرح 47 فی صد ہے۔
اور اب کُچھ ذکرریاضی کے شُعبے میں غیر معمولی صلاحیت والی ہندوستانی خاتون شکُنتلا دیوی کا جن کا 83 برس کی عمر میں بنگلور میں انتقال ہو گیا ہے۔
شکنتلا دیوی کے ریاضی پر حیرت انگیز عبور کی مثال دیتے ہوئے 'لاس انجلس ٹائمز' کہتاہے کہ 1980ء میں اُنہیں لندن کے امپیریل کالج میں کمپیوٹر سے نکالے گئے تیرہ تیرہ ہندسوں والے دو اعداد میں ضرب لگانے کو کہا گیا۔ تو انہوں نےصرف 28 سیکنڈ میں اس کا درُست جواب نکالا اور ان کے 28 سیکنڈ کے جواب میں 26 ہندسوں پر مشتمل جواب کو بآواز بُلند ادا کرنا بھی شامل تھا۔
اس کارنامے کے بعد 1982ء میں عالمی ریکارڈز کی گِنس بُک میں اُن کا نام شامل کیا گیا تھا۔
شکنتلا دیوی بنگلور میں پیدا ہوئی تھیں۔ اُن کے والد سرکس میں نٹ کا کام کرتے تھے۔ جب وُہ تین سال کی تھیں تو ان کے والد کو پتہ چلا کہ اسے ہندسے حفظ کرنے میں غیر معمولی ملکہ حاصل ہے اور پانچ سال کی عمر کو پہنچنے تک اُسے ریاضی کے سوال حل کرنے کی مہارت حاصل ہوگئی تھی۔
شروع شروع میں اس نے اپنے والد کے ساتھ سرکس میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور چھ سال کی عمر میں بنگلور یونیورسٹی میں بڑے پیمانے پر اپنا پہلا شو کیا۔ اپنے یورپ کے دورے میں 'بی بی سی' کے ایک پروگرام میں اُسے ضرب تقسیم کا نہایت مُشکل سوال دیا گیا۔ جس میں اس کا جواب انٹرویو کرنے والے کے جواب سے مختلف نکلا۔ بعد میں تحقیق سے پتہ چلا کہ شکنتلا کا جواب ہی صحیح ہے۔ شکنتلا دیوی ایک کامیاب جوتشی اور ناول نگار بھی تھیں۔
اخبار کہتا ہے کہ فوجی عہدے دار اور قیدیوں کے وکلا، دونوں اس خلفشار کی وجوہات کے بارے میں متفق ہیں۔
'وہائٹ ہاؤس' میں پہنچنے کے ساتھ ہی مسٹر اوباما کی اوّلین ترجیح تھی گوانتانامو کے قید خانے کو بند کرنا، اور قیدیوں کو امریکہ کی سرزمیں پر موجود کسی مناسب جیل میں منتقل کرنا۔ لیکن کانگریس میں مخالفت کی وجہ سے اس تجویز کو معرضٕ التواء میں ڈال دیا گیا۔
قیدیوں تک جب یہ خبر پہنچی تو اُنہیں سخت مایوسی ہوئی۔ وُہ اس قید خانے کے بند ہو جانے کے بارے میں بُہت پُر امّید تھے۔ ان کی ناامیدی میں اور زیادہ اضافہ ہو گیا جب مسٹر اوباما نےجنوری 2011ء میں ایک قانون پر دستخط کیے جس کی رو سے قیدیوں کے تبادلے پر روک لگا دی گئی۔
وہاں کے نصف سے زیادہ قیدیوں کو کسی دوسرے ملک منتقل کیا جانا تھا۔ اخبار یاد دلاتا ہے کہ صدر بُش کے دور میں وہاں قیدیوں کی تعداد 779 تھی جن میں سے مسٹر اوباما کے آنے تک 240 رہ گئے تھے۔ اس وقت وہاں 166 قیدی ہیں جن میں سے بقول اخبار کے کئی درجن خطرناک ہیں جن کو رہا نہیں کیا جاسکتا لیکن جن پر مقدمہ چلانا بھی ناممکن ہے۔
ریاست ٹیکسس کے شہر ڈلس میں سابق صدر جارج ڈبلیو بُش کی لائبریری کی افتتاحی تقریب کے مہمانوں میں موجودہ صدر براک اوباما بھی شامل تھے۔
اس موقع کی مناسبت سے 'واشنگٹن ایگزیمینر' اخبار کے وہائٹ ہاؤس کے نامہ نگار برائن ہُیوز ایک کالم میں رقم طراز ہیں کہ مسٹر اوباما نے وہائٹ کے حصول کے لیے جارج بُش کی پالیسیوں کی مخالفت کی راہ اختیار کی تھی۔ اپنی سیاسی زندگی کے آغاز ہی میں اُنہوں نے عراق کی جنگ اور دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے خلاف آواز بلند کی تھی، اور اُنہوں نے ری پبلکنوں پر الزام لگایا تھا کہ اُنہوں نے سیکیورٹی کےنام پر امریکی اقدار کو قربان کردیا ہے۔ اور متوسّط طبقے کے مقابلے میں صاحب ثروت طبقے کو تحفظ فراہم کر کے امریکی معیشت کو تنزُّل کی راہ پر ڈال دیا ہے۔
لیکن بقول نامہ نگار کے مسٹر اوباما کی دوسری میعاد صدارت کے چند ہی ماہ بعد تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ وہ اور اُن کے ری پبلکن پیش رو کی پالیسوں کے درمیان فرق دُھندلا ہوتا جا رہا ہے۔
خاص طور پر قومی سلامتی کے امُور میں جن میں دونوں لیڈروں کی پالیسیوں میں کوئی بڑا فرق نہیں۔ پھر مسٹر اوباما نے ڈرون طیاروں کے بارے میں نہ صرف بش کے پروگرام کو اپنایا بلکہ اُس کو وسعت دی، اور پاکستان پر ڈرون حملوں کی بوچھاڑ کردی۔ یہی کُچھ گوانتانامو کے قید خانے میں بھی ہو رہا ہے جہاں دہشت گردی کے مُلزم غیر معیّنہ عرصے کے لیے بند ہیں، دونوں صدارتوں کے درمیان ان مماثلتوں کے ساتھ مضمون نگار نے اے بی سی ٹیلیوژن کے رائے عامہ کے اس جائزے کی طرف توجُہ دلائی ہے، جس کے مطابق دونوں لیڈروں کی عوام میں مقبولیت کی شرح 47 فی صد ہے۔
اور اب کُچھ ذکرریاضی کے شُعبے میں غیر معمولی صلاحیت والی ہندوستانی خاتون شکُنتلا دیوی کا جن کا 83 برس کی عمر میں بنگلور میں انتقال ہو گیا ہے۔
شکنتلا دیوی کے ریاضی پر حیرت انگیز عبور کی مثال دیتے ہوئے 'لاس انجلس ٹائمز' کہتاہے کہ 1980ء میں اُنہیں لندن کے امپیریل کالج میں کمپیوٹر سے نکالے گئے تیرہ تیرہ ہندسوں والے دو اعداد میں ضرب لگانے کو کہا گیا۔ تو انہوں نےصرف 28 سیکنڈ میں اس کا درُست جواب نکالا اور ان کے 28 سیکنڈ کے جواب میں 26 ہندسوں پر مشتمل جواب کو بآواز بُلند ادا کرنا بھی شامل تھا۔
اس کارنامے کے بعد 1982ء میں عالمی ریکارڈز کی گِنس بُک میں اُن کا نام شامل کیا گیا تھا۔
شکنتلا دیوی بنگلور میں پیدا ہوئی تھیں۔ اُن کے والد سرکس میں نٹ کا کام کرتے تھے۔ جب وُہ تین سال کی تھیں تو ان کے والد کو پتہ چلا کہ اسے ہندسے حفظ کرنے میں غیر معمولی ملکہ حاصل ہے اور پانچ سال کی عمر کو پہنچنے تک اُسے ریاضی کے سوال حل کرنے کی مہارت حاصل ہوگئی تھی۔
شروع شروع میں اس نے اپنے والد کے ساتھ سرکس میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور چھ سال کی عمر میں بنگلور یونیورسٹی میں بڑے پیمانے پر اپنا پہلا شو کیا۔ اپنے یورپ کے دورے میں 'بی بی سی' کے ایک پروگرام میں اُسے ضرب تقسیم کا نہایت مُشکل سوال دیا گیا۔ جس میں اس کا جواب انٹرویو کرنے والے کے جواب سے مختلف نکلا۔ بعد میں تحقیق سے پتہ چلا کہ شکنتلا کا جواب ہی صحیح ہے۔ شکنتلا دیوی ایک کامیاب جوتشی اور ناول نگار بھی تھیں۔