امریکی حکومت کا 'شٹ ڈاؤن' کیا ہے؟

آئیے، ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ یہ 'شٹ ڈاؤن' کیا ہے؟ کیسے ہوتا ہے؟ اور اس سے کون کون سی سرگرمیاں اور لوگ متاثر ہوتے ہیں؟
امریکی پارلیمان – جسے کانگریس کہا جاتا ہے – کے دونوں ایوانوں کے درمیان بجٹ پر موجود اختلافات دور نہ ہونے کے سبب یکم اکتوبر سے امریکی حکومت 'شٹ ڈاؤن' ہوگئی ہے۔ آئیے، ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ یہ 'شٹ ڈاؤن' کیا ہے؟ کیسے ہوتا ہے؟ اور اس سے کون کون سی سرگرمیاں اور لوگ متاثر ہوتے ہیں؟


'شٹ ڈاؤن' کیا ہے؟

کسی بھی ملک کی حکومت گاڑی کی طرح ہوتی ہے جو 'روپے پیسے' کے ایندھن سے چلتی ہے۔ اب اگر گاڑی میں ایندھن نہ ڈالا جائے تو لامحالہ وہ رک جائے گی۔

امریکی حکومت کی گاڑی میں ایندھن بھرنے کی ذمہ داری کانگریس کی ہے جو یہ فیصلہ کرتی ہے کہ حکومت کو کب، کتنی رقم، کس سرگرمی کے لیے دی جانی ہے۔

امریکہ میں نئے مالی سال کا آغاز یکم اکتوبر سے ہوگیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ امریکی حکومت نے گزشتہ مالی سال میں کانگریس سے اپنی سرگرمیوں کے لیے جو پیسہ لیا تھا، وہ 30 ستمبر کو رات 12 بجے ختم ہوگیا اور اب اسے اپنے کام جاری رکھنے کے لیے مزید رقم کی ضرورت ہے۔

لیکن کانگریس کے دونوں ایوان – یعنی سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان - تاحال نئے سال کے بجٹ پر متفق نہیں ہوسکے ہیں۔ ان دونوں ایوانوں کے اختلافات کے سبب نیا مالی سال شروع ہونے کے باوجود اس کا بجٹ منظور نہیں ہوسکا اور پیسے نہ ہونے کے باعث امریکی حکومت کو اپنی سرگرمیاں اور ادارے بند کرنے پڑ گئے ہیں۔ اس بندش کو ہی 'شٹ ڈاؤن' کہا جاتا ہے۔

امریکی پارلیمان کی عمارت 'کیپٹ ہل' کے سامنے ایک شخص احتجاجی کتبہ لیے کھڑا ہے

کیا امریکی حکومت اس سے پہلے بھی 'شٹ ڈاؤن' ہوئی ہے؟

جی ہاں۔ امریکہ میں مالی وسائل نہ ہونے کے باعث حکومت کا اپنی سرگرمیاں روکنا کوئی ایسی نئی بات نہیں۔ سنہ 1977 سے اب تک امریکی حکومت 17 بار 'شٹ ڈاؤن' کا شکار ہوئی ہے۔ آخری بار حکومت کو 1996ء میں اس کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہ شٹ ڈاؤن 21 دن جاری رہا تھا۔

اس بار 'شٹ ڈاؤن' کیوں ہوا ہے؟

امریکہ میں دو جماعتی سیاسی نظام رائج ہے اور اس وقت وہاں کی پارلیمان واضح تقسیم کا شکار ہے۔ ایوانِ بالا، یعنی سینٹ میں صدر براک اوباما کی جماعت 'ڈیموکریٹ' کی اکثریت ہے جب کہ ایوانِ نمائندگان میں 'ری پبلکن' کو اکثریت حاصل ہے۔

دو جماعتی ایوان ہونے کے سبب امریکہ میں اس وقت تک کوئی قانون بن سکتا ہے اور نہ ہی بجٹ منظور ہوسکتا ہے جب تک دونوں ایوان اس کی منظوری نہ دے دیں۔

اس وقت دونوں جماعتوں کے درمیان اصل وجۂ نزاع وہ قانون ہے جس کے تحت ان لاکھوں امریکیوں کو صحت کی سہولتیں فراہم کی جانی ہیں جو اپنی جیب سے 'ہیلتھ انشورنس' خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔

'اوباما کیئر' نامی یہ قانون یکم اکتوبر سے شروع ہونے والے مالی سال سے مؤثر ہوگیا ہے۔ لہذا اس سال بجٹ میں اس مد میں بھی رقم مختص کی جانی ہے۔

لیکن معاملہ یہ ہے کہ ری پبلکن جماعت کے ارکان اس قانون کے سخت مخالف ہیں اور انہوں نے ان بجٹ تجاویز کو منظور کرنے سے صاف انکار کردیا ہے جس میں اس قانون کے لیے بھی رقم مختص ہوگی۔

دوسری جانب صدر اوباما اور ان کی جماعت 'ڈیموکریٹ' کے ارکانِ کانگریس کسی ایسے بلِ کو منظور کرنے سے انکاری ہیں جس میں 'اوباما کیئر' کے لیے بجٹ نہیں رکھا جائے گا۔

دونوں جماعتوں کے اپنے اپنے موقف پر اصرار کے باعث نئے مالی سال 14-2013 کا بجٹ منظور نہیں کیا جاسکا ہے جس کے باعث امریکی حکومت کو اپنی "غیر ہنگامی نوعیت" کی سرگرمیاں معطل کرنا پڑی ہیں۔

تو کیا 'شٹ ڈاؤن' کے نتیجے میں امریکی حکومت کا تمام کام بند ہوجائے گا؟

جی نہیں۔ امریکی حکومت کی وہ تمام سرگرمیاں بدستور جاری رہیں گی جن کا تعلق قومی سلامتی، دفاع اور ہنگامی نوعیت کی صورتِ حال سے ہے۔

امریکہ کی وفاقی حکومت کے زیرِ انتظام چلنے والے تمام ادارے اپنے ملازمین میں سے ان افراد کی نشاندہی کریں گے جن کا اپنی ملازمت پر موجود رہنا "قومی سلامتی یا انسانی جانوں اور املاک کے تحفظ" کے لیے "ضروری" ہے۔

ان تمام "ضروری " ملازمین کو بدستور اپنی ذمہ داریاں انجام دینا ہوں گی اور انہیں کانگریس کی جانب سے فنڈز جاری کیے جانے کے بعد اس عرصے کا معاوضہ بھی دیا جائے گا۔ البتہ دیگر "غیر ضروری" ملازمین کو اس وقت تک بغیر تنخواہ کے گھر بیٹھنا پڑے گا جب تک نیا بجٹ منظور نہیں ہوجاتا۔

اس 'شٹ ڈاؤن' سے پولیس اور امریکی فوج کے مسلح اہلکار متاثر نہیں ہوں گے البتہ محکمہ دفاع کے چار لاکھ سول ملازمین میں سے نصف کو بغیر تنخواہ کے چھٹیوں پر بھیج دیا جائے گا۔ اسی طرح محکمۂ خارجہ کی بیرونِ ملک بیشتر سفارتی سرگرمیاں بھی جاری رہیں گی اور ویزا درخواستوں کی وصولی اور اجرا بھی ہوتا رہے گا تاہم عملے کی کمی کے باعث اس میں تاخیر ہوسکتی ہے۔

امریکہ کی داخلی سکیورٹی کے ذمہ دار ادارے 'ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سکیورٹی' نے اپنے کل دو لاکھ ملازمین میں سے 86 فی صد کو "ضروری" قرار دیا ہے۔ باقی کے 14 فی صد ملازمین 'شٹ ڈاؤن' کے عرصے کے دوران بغیر تنخواہ کے رخصت پر بھیج دیے گئے ہیں۔

امریکہ میں 'شٹ ڈاؤن' کا موسم سیاحوں کے لیے خاصی ناامیدی کا سبب بن سکتا ہے کیوں کہ بیشتر عجائب گھروں، چڑیا گھروں، نیشنل پارکس اور قومی یادگاروں کے ملازمین کو "غیرضروری" قرار دیے جانے کے سبب ان مقامات کو عوام کے لیے بند کردیا گیا ہے۔

'شٹ ڈاؤن' سے امریکی حکومت کے کتنے ملازمین متاثر ہوں گے؟

امریکہ کی وفاقی حکومت کے ملازمین کی تعداد لگ بھگ 22 لاکھ ہے۔ ان میں امریکی فوج کے مسلح اہلکار اور محکمۂ ڈاک کے وہ ملازمین شامل نہیں جو 'شٹ ڈاؤن' سے مستثنیٰ ہیں۔

ان 22 لاکھ ملازمین میں سے لگ بھگ آٹھ لاکھ کو 'شٹ ڈاؤن' جیسے حالات میں "غیرضروری" سمجھا جاتا ہے اور انہیں 'شٹ ڈاؤن' کے عرصے کے دوران میں بغیر تنخواہ کے چھٹیوں پر بھیجا جاسکتا ہے۔

"غیر ضروری" قرار دیے جانے والے ملازمین 'شٹ ڈاؤن' کے دوران بھی سرکاری امور انجام دے سکتے ہیں لیکن ایسا کرنا ان کے لیے نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے۔

'شٹ ڈاؤن' کے عرصے کے دوران میں "غیر ضروری" سرکاری ملازمین کی جانب سے اپنے سرکاری امور کی انجام دہی تیکنیکی طور پر غیر قانونی عمل ہے۔ حتیّٰ کہ یہ ملازمین اس عرصے کے دوران میں اپنا سرکاری ای میل اکاؤنٹ بھی چیک نہیں کرسکتے۔


'شٹ ڈاؤن' کا امریکی معیشت کو کیا نقصان ہوگا؟

سادہ سی بات یہ ہے کہ جب لوگوں کو تنخواہ نہیں ملے گی، تو وہ خریداری کے لیے بازاروں کا رخ کریں گے اور نہ ہی کریڈٹ کارڈ اور قرض پر لی جانے والی اشیاء کی قسطیں ادا کرپائیں گے۔ اس عدم ادائیگی کے باعث کاروباری اور معاشی اداروں کی آمدن متاثر ہوگی جس کا اثر امریکی معیشت پر بھی پڑے گا۔

بعض امریکی تجزیہ کاروں کو خدشہ ہے کہ 'شٹ ڈاؤن' کے دوران میں امریکی معیشت کی پیداواری صلاحیت میں روزانہ 30 کروڑ ڈالر کی کمی ہوگی۔ لیکن اس بحران سے متعلق اصل پریشانی اس کا دورانیہ ہے۔ یہ 'شٹ ڈاؤن' جتنا طویل ہوگا، امریکی معیشت اتنا ہی زیادہ نقصان اٹھائے گی۔